تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ۔ اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیںَ جس طرح آج ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کرو۔ میں اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کردوںگا۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ئ)
مارچ ۱۹۴۷ء میں متحدہ ہندوستان وپنجاب میں فسادات زوروشور سے شروع ہوگئے۔ مرزائیوں نے جواہر لال، چندولال ترویدی، گورنر مشرقی پنجاب اور گاندھی جی کے پاس پہنچ کر کہا کہ پاکستان کے مسلمان، جن کو ہم ساری عمر کافر کہتے رہے اور ان کی ہر بات میں مخالفت کرتے رہے۔ وہاں ہمیں جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حکم جاری کردو کہ ہمیں قادیان سے نہ نکلنا پڑے۔ مگر ہندو سکھ لیڈروں سے بھی ندامت اٹھانی پڑی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور چار وناچار پاکستان میں پناہ لینی پڑی اور مسلمان قوم کے ہی قدموں میں گرنا پڑا۔ مسلمان نے لاتشریب علیکم الیوم آج تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا کہہ دیا اور مسلمان اس رعایت سے مرزائیوں نے بے شمار الاٹ منٹوں پہ ہاتھ صاف کیا۔ قادیان کے متعلق فرقہ احمدیہ نے اکثر ڈھینگ ماری ہے کہ ہمارے پاس ہوائی جہاز تھے۔ اسلحہ تھا۔ ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمارا کچھ نقصان نہیں ہوا۔ سو یہ مرزائیوں کا محض جھوٹ ہے۔ ملاحظہ ہو:
تشویش ناک حالات
’’پہلے سکھوں نے اردگرد کے دیہات پہ حملہ کر کے مسلمانوں کو مار بھگایا (اور قادیانی تماشہ دیکھتے رہے۔ مصنف) اور ان کے مال ومتاع کو لوٹ کر جلادیا۔ پھر قادیان کا رخ کیا۔ حکومت کی مدد سے رسل ورسائل کے تمام اسباب منقطع کر دئیے۔ یہاں تک کہ قادیان کے وہ ہوائی جہاز جو اردگرد کی خبرلاتے تھے اور مصیبت زدہ مسلمانوں کی کچھ نہ کچھ مدد کرتے تھے۔ (یہاں مسلمانوں سے مراد فرقہ احمدیہ لیا ہے) ان کی پرواز بھی ممنوع قرار دے دی گئی۔
اسی اثناء میں سکھوں نے مختلف محلوں میں لوٹ مار شروع کردی اور جن مقامات سے عورتوں اور بچوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا تھا۔ ان پر قبضہ کر لیا۔ خان بہادر نواب محمد الدین سابق ڈپٹی کمشنر (جس نے میاں محمد ممتاز دولتانہ صدر مسلم لیگ موجودہ وزیراعظم پنجاب کا ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں خضری ٹکٹ پہ مقابلہ کیا تھا اور بری طرح شکست کھائی۔ مصنف) وسابق