ہندوستان بنے اور ساری قومیں شیروشکر ہوکر رہیں۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۳۵ نمبر۸۱ ص۳، مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
متحدہ ہندوستان
’’اﷲتعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے۔ اگر عارضی علیحدگی ہو تو یہ اور بات ہے۔ ہندوستان کی تقسیم پر ہم رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائے۔‘‘
(بیان خلیفہ محمود، مندرجہ اخبار الفضل قادیان ج۳۵ نمبر۱۱۶ ، مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۴۷ئ)ہندو لیڈروں کے بیانات
مندرجہ جس قدر خلیفہ قادیان کے بیانات ہیں۔ یہی بات ہندو لیڈر اور ماسٹر تارا سنگھ کہتے ہیں کہ تقسیم ہندوستان غلط ہے۔ دوبارہ متحد ہونا چاہئے اور پاکستان پر حملہ کر دینا چاہئے۔ سوچنے والا آسانی سے اس بات کو پاسکتا ہے کہ خلیفہ صاحب کا منشاء کیا ہے۔
انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں، زبان میری ہے بات ان کی
انہیں کی محفل سنوارتا ہوں، چراغ میرا ہے رات ان کی
مگر انڈین یونین کے لیڈروں نے میاں محمود کے بیانات پہ دھوکہ نہ کھایا اور باوجود اس کے کہ مرزائیوں نے باؤنڈری کمیشن کے روبرو ایک میمورنڈم پیش کیا کہ قادیان کے مرزائی پاکستان وہندوستان میں شامل ہونا نہیں چاہتے۔ مگر یہ میمورنڈم فیل کر دیا گیا اور مرزائیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
انگریزی حکومت کا مطالبہ پاکستان کو تسلیم کر لینے سے پیشتر فرقہ احمدیہ کے ہیڈ میاں محمود نے انگریزوں کی حکومت کو اپنی پرانی وفاداری کا واسطہ دے کر یہ مطالبہ کیا کہ جاتے جاتے ان کے حقوق بطور اقلیت کے محفوظ کئے جائیں۔ مگر مرزائیوں کو اس جگہ بھی بری طرح ناکامی ہوئی۔ ملاحظہ ہو:
پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
احمدی اقلیت تسلیم کی جاوے
’’میں نے ایک نمائندہ کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز آفیسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس آفیسر نے کہا کہ وہ