کا امکان بھی تھا۔ ادھر مسلم لیگ کے نعرے گلی، کوچوں، بازاروں، جلسے جلوسوں بلکہ سول نافرمانی کی تحریک تک پہنچ چکے تھے اور مسلمانوں نے ہر قسم کی جانی مالی قربانی کے پیش نظر ہر شہر میں ایکشن کمیٹی قائم کی۔ ملک میں پاکستان کے حق میں عام جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔ بعض جگہ شرارتی ہندوؤں نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لئے فسادات شروع کر دئیے۔ تاکہ مسلمان اپنے نقصان سے ڈر کر اس مطالبہ سے باز رہیں۔ چنانچہ کئی جگہ بلوے ہوئے۔ امرتسر میں زبردست فساد ہوا۔ چنانچہ اس وقت اس دشمن پاکستان فرقہ کے خلیفہ میاں محمود نے محض ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے قادیان میں خطبہ دیا۔ ملاحظہ ہو:
مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیا جائے
’’اس ایجی ٹیشن قانون شکنی اور سٹرائک میں احمدیوں کو مسلم لیگ کا ساتھ نہ دینا چاہئے۔‘‘ (خطبہ محمود، الفضل قادیان ج۳۵ نمبر۲۷ ص۲، مورخہ یکم؍فروری ۱۹۴۷ئ)
پاکستان کا مطالبہ غلط ہے
’’ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ہر تقسیم اصولاً غلط ہے۔‘‘ (بیان خلیفہ محمود مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
گاندھی جی سے ہم بستری
’’میں نے دیکھا کہ گاندھی جی مجھ سے ملنے آئے ہیں اور وہ میرے ساتھ ایک ہی بستر پر سوگئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں مل کر رہنے میں فائدہ ہے۔‘‘
(خواب میاں محمود، مندرجہ الفضل قادیان ج۲۵ نمبر۸۷ ص۲، مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
اکھنڈ ہندوستان رہے
’’ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہندو مسلم سوال اٹھ جائے اور ساری قومیں شیرد شکر ہوکر رہیں۔ تاکہ ملک کے حصے بخرے نہ ہوں۔ بے شک یہ کام مشکل ہے۔ مگر اس کے نتائج بہت شاندار ہیں۔ اﷲتعالیٰ چاہتا ہے کہ ساری قومیں متحد رہیں۔ تاکہ احمدیت اس وسیع بیس میں ترقی کرے۔ چنانچہ اس رؤیا (خدائی اشارہ) میں اس طرف اشارہ ہے کہ ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو۔ (میاں محمود پاکستان بننے کا نام افتراق رکھتے ہیں۔ اس لئے جماعت احمدیہ کا الہامی عقیدہ ہے کہ پاکستان کا وجود عارضی ہے) اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدا جدا رہیں۔ مگر یہ حالت عارضی ہوگی۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہو جائے۔ بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ