شرائط معاہدہ
’’قادیان کی جماعت احمدیہ نے جو معاہدہ ترقی تجارت تجویز کیا ہے۔ مجھے منظور ہے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ ضروریات جماعت احمدیہ کا خیال رکھوں گا اور جو حکم ناظر امور عامہ دیں گے اس کی بلاچوں وچرا تعمیل کروں گا۔ نیز جو اور ہدایات وقتاً فوقتاً جاری ہوںگی۔ ان کی بھی پابندی کروں گا۔ اگر میں کسی حکم کی خلاف ورزی کروں گا توجو جرمانہ تجویز ہوگا وہ ادا کروں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میرا جو جھگڑا احمدیوں سے ہوگا اس کے لئے امام جماعت احمدیہ (قادیان) کا فیصلہ میرے لئے حجت ہوگا اور ہر قسم کا سودا احمدیوں سے خریدوں گا۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ۲۰روپیہ سے لے کر ۸۰روپیہ تک جرمانہ ادا کروں گا اور بیس روپیہ پیشگی جمع کرادوں گا۔ اگر میرا جمع شدہ روپیہ ضبط ہوجاوے تو مجھے اس کی واپسی کا حق نہ ہوگا۔ نیز میں عہد کرتا ہوں کہ احمدیوں کی مخالفت مجلس میں شریک نہ ہوںگا۔ شرائط معاہدہ تجارتی لائسنس جاری کردہ ناظر امور عامہ قادیان۔‘‘
مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان
ملکی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ انگریز بین الاقوامی طور پر مجبور ہورہا تھا کہ وہ دوردراز کے علاقوں سے جن پر اس کا جبری قبضہ تھا۔ اپنا تسلط اٹھالے اور ان ملکوں کو آزاد کر دے۔ ہندوستان میں ۱۹۴۲ء کی کانگریسی تحریک نے انگریز کو جان کنی کی حالت میں کردیا تھا اور قریب تھا کہ انگریزی سامراج کی جگہ ہندو سامراج متحدہ ہندوستان پہ قبضہ جمالے۔ قائداعظم کی دور رس نگاہوں نے کانگریس کی ہوشیاری کو بھانپ لیا تھا۔ چنانچہ مسلمانان ہند نے ان کی قیادت میں ۱۹۴۱ء میں پاکستان کی تحریک کو زورشور سے پیش کیا۔ انگریزی سامراج کی بجائے ہندوسامراج ترقی کر رہا تھا۔ میاں محمود کو اس کش مکش میں مسلمانوں کا ساتھ دینا منظور نہ تھا۔ کیونکہ انگریز خود پاکستان کو مسلمانوں کے مطالبہ کے مطابق مسلم سلطنت بنانے کے لئے تیار نہ تھا۔ کیونکہ انٹرنیشنل طور پر اسلامی بلاک بننے کے امکانات پیدا ہورہے تھے۔ چنانچہ اس نے چپ سادھ لی اور اپنے خود کاشتہ پودے کے کان میں پھونک دیا کہ اب میری بجائے کانگریس کو آقائے ولی نعمت سمجھو اور اس کی پوجا کرو۔ فرقہ احمدیہ کا خلیفہ اس بات کو سمجھ گیا۔ اس کا تو شروع سے مسلمانوں کی ہر بات میں مخالفت شیوہ تھا۔ چنانچہ وہ سوچ رہا تھا کہ اس مطالبہ پاکستان کا جو ایک زبردست تحریک عملی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کس طرح مخالف ہو۔ کیونکہ اس طوفانی تحریک میں اس کا نقصان پہنچ جانے