سے ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے احمدیت پر اعتراض اور احمدیوں کو الگ کرنے کا سوال بالکل فضول ہے اور ان کے گزشتہ رویہ کے خلاف ہے تو ایسے شخص کا استقبال جب کہ وہ صوبہ میں مہمان کی حیثیت سے آرہا ہو تو ایک سیاسی انجمن (نیشنل لیگ کور قادیان) کی طرف سے بہت اچھی بات ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ میاں محمود، مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۴۶ئ)
عیاں بات
اس امر پہ حیرانی کی کوئی وجہ نہیں کہ جواہر لال فرقہ احمدیہ کو برطانوی جاسوس سمجھتا ہو۔ ابھی کیوں اس فرقہ کی پشت پناہی پہ کھڑا ہوا۔ بات واضح ہے کہ ہندو امپریلزم برٹش امپریلزم کی جگہ لے رہا تھا اور ہندو، انگریز اور مسلمانوں کو دشمن سمجھتا تھا۔ لہٰذا اس پودے کی پرورش ’’داشتہ بکار آید‘‘ ضروری تھی ؎
اس جبر پہ تو ذوق بشر کا یہ حال ہے
نہ جانے کیا کرے جو خدا اختیار دے
قادیانی کا تجارتی معاہدہ
قادیان میں جہاں فرقہ احمدیہ کی اکثریت تھی۔ اس کی مردم شماری ۱۹۴۱ء میں تقریباً حسب ذیل تھی۔
مرزائی ……… ۷۰۰۰ سات ہزار
(اہل سنت) مسلمان ……… ۲۳۰۰ دوہزار تین سو
ہندو، سکھ ……… ۱۰۰۰ ایک ہزار
دیگر چوہڑے عیسائی ……… ۸۰۰ آٹھ سو قادیان میں فرقہ احمدیہ نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کا تجارتی واقتصادی بائیکاٹ کر رکھا تھا اور اپنی سیاسی چالاکی سے ایک معاہدہ شرائط لکھا کر سودا خریدتے تھے۔ یہ ایک قسم کا لائسنس ہر غیرمرزائی کو جو مرزائیوں کے پاس سودا فروخت کرنا چاہے۔ ان سے لینا پڑتا تھا۔ جو یہ تجارتی معاہدہ کا بورڈ نہ لے اس سے کوئی مرزائی سودا نہیں خریدتا تھا۔ اگر کوئی مرزائی بھولے سے غیرمرزائی سے سودا خریدے تو اس کو میاں محمود خلیفہ المسیح کی نظارت کی طرف سے جرمانہ کی سزا دی جاتی تھی۔ اس طرح مرزائی سی۔ آئی۔ڈی عام بازاروں میں پھر کر نوٹ کرتی کہ کون سا مرزائی غیرمرزائیوں سے سودا خریدتا ہے۔ چنانچہ اس لائسنس یا بورڈ کی شرائط حسب ذیل تھیں۔