نے لیگ کی طرف سے آپ کے گلے میں ہار ڈالے۔ کور کی طرف سے حسب ذیل موٹو جھنڈوں پر خوبصورتی سے آویزاں تھے۔
1- Beloved of the nation, Welcome you.
2- We join in civil liberties Union.
3- Long live Jawahir Lal.
کور کا مظاہرہ ایسا شاندار تھا کہ ہر شخص اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ایسا شاندار نظارہ لاہور میں کم دیکھنے میں آیا۔
کانگریس لیڈر کور کے ضبط اور ڈسپلن سے حد درجہ متأثر ہوئے اور باربار اس کا اظہار کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک لیڈر نے جناب شیخ صاحب سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں۔ تو یقینا ہماری فتح ہوگی۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۲۳ نمبر۲۷۸ ص۲، مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۳۶ئ)
عام مرزائیوں کے اعتراضات
خلیفہ قادیان میاں محمود احمد پسر مرزاغلام احمد قادیانی مدعی نبوت نے کانگریس سے ساز باز حالات کے بدلتے ہوئے رخ کو دیکھ کر کی۔ کہ انگریز ہندو کے ہاتھ میں اقتدار دے کر جائے گا اور کانگریس کو اقتدار حاصل ہوگا۔ تو پھر منہ مانگا انعام ملے گا۔ مگر عام مرزائیوں کو اس سازباز کا علم نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اعتراض کئے کہ کانگریس کی مخالفت احمدیت کا جزو تھا۔ جواہر لال یورپ سے یہ سبق حاصل کر کے آیا تھا کہ انگریزوں کو ہندوستان سے ختم کرنے کے لئے برطانیہ کی اس جاسوس جماعت کو ختم کرنا ضروری ہے اور یہ بات ڈاکٹر سید محمود سیکرٹری کانگریس نے خلیفہ کو قادیان میں ملاقات کے دوران میں جواہرلال نہرو کا خیال بتایا تھا۔ پھر اس کے باوجود اس کا شاہانہ استقبال کیوں کیاگیا ہے۔ یہ مسیح موعود کی توہین ہے اور ساری جماعت احمدیہ کی مٹی پلید ہوئی ہے اور ہم دنیا میں شرم کے مارے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اور یہ ابن الوقتی ہمیں ذلیل کرے گی وغیرہ وغیرہ۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح نے جو جواب دیا۔ ملاحظہ ہو:
جواہر لال کا استقبال اچھی بات ہے
’’اگر پنڈت جواہرلال نہرو یہ اعلان کردیتے کہ احمدیت کو مٹانے کے لئے وہ اپنی طاقت خرچ کریں گے۔ جیسا کہ احرار نے کیا ہوا ہے تو اس قسم کا استقبال بے غیرتی ہوتا۔ لیکن اگر اس کے خلاف قریب کے زمانہ میں پنڈت صاحب نے ڈاکٹر اقبالؒ کے ان مضامین کا ردلکھا ہو جو انہوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دئیے جانے کے لئے لکھے ہیں اور نہایت عمدگی