مرزائی ممبروں کو نکالا گیا۔ اسی طرح پنجاب کی تمام اسلامی انجمنوں نے مرزائیوں سے اپنے وجود کو پاک کر لیا۔
مجلس احرار اسلام ہند نے مختلف مقامات پہ جلسے کر کے لوگوں کو اس فرقہ احمدیہ کی اندرونی منافقتوں سے آگاہ کیا۔ اخبار زمیندار اور احسان اور مولانا مرتضیٰ احمد خان کی کوششیں اس کارخیر میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ مسلمانوں میں بیداری یہاں تک بڑھی کہ پنجاب مسلم لیگ نے بھی مرزائیوں کو مسلم لیگ سے خارج کر دیا۔ چنانچہ مرزائی مسلم لیگ کے اس فیصلہ پر بہت تلملائے۔ ملاحظہ ہو:
مسلم لیگ کا اعلان
’’مسلم لیگ اعلان کر چکی ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود (مرزاغلام احمد قادیانی) کو خداتعالیٰ کا مامور اور راست باز مانے اسے وہ (مسلم لیگ) مسلمان نہیں سمجھتی اور نہ اپنے ساتھ سیاست میں اس وقت تک شامل کرنے کو تیار ہے۔ جب وہ احمدی ہونے سے انکار نہ کردے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۳۷ئ)
مسلم لیگ کا حلف نامہ
’’اب تو مسلم لیگ نے بھی جس کے ممبر آزاد خیال اور روادار سمجھے جاتے تھے اور ہندوستان کی ذہنی روح تصور کئے جاتے تھے ایک حلف نامہ تیار کیا ہے کہ جو ان کی (مسلم لیگ) طرف سے اسمبلی کے لئے امیدوار کھڑا ہو وہ وہ یہ حلف اٹھائے کہ میں اسمبلی میں جاکر احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت منظور کروانے کی کوشش کروں گا۔‘‘
(لاہوری احمدیوں کا اخبار پیغام صلح مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۶ئ)
آپ حیران ہوںگے کہ مسلم لیگ جیسی سیاسی جماعت نے آخر یہ انتہاء پسندانہ اقدام کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرقہ احمدیہ نے اگرچہ مذہب کی اوڑنی اوڑ رکھی ہے۔ مگر یہ کوئی فرقہ مذہبی نہیں ہے۔ مذہب کی آڑ میں سیاست پہ چھا جانا چاہتا ہے۔ اپنی خوشامدانہ باتوں سے اقتدار پہ چھاپہ مارنا چاہتا ہے اور جوں جوں اس فرقہ کے ہاتھ میں اقتدار آیا۔ اس نے اپنے وار کا رخ مسلمانوں پہ ہی کیا اور جس مذہب اور قوم سے نشوونما حاصل کی۔ اسی کی ہی جڑ کاٹنے کی ناکام کوشش کی۔ مگر اسلام کا اﷲ حافظ تھا۔ مسلم لیگ پہلے اس فرقہ کے پر فریب اعلانات پر دھوکہ کھاگئی تھی۔ مگر جب مسلم لیگ نے قریب ہوکر دیکھا کہ یہ فرقہ مسلمان کا ہی جانی سیاسی واقتصادی دشمن ہے تو مسلم لیگ نے محسوس کیا کہ اس فرقہ کو مسلمانوں کے نام پہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کا کوئی حق