رامائن اور گیتا کا پاتھ نہیں اٹھایا۔ کیا سکھ اپنے آپ کو ہندو کہلانے سے انکار نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ زمانہ دور نہیں جب احمدی برملا کہیں گے۔ صاحب ہم محمدی مسلمان نہیں۔ ہم تو احمدی مسلمان ہیں۔ کوئی ان سے سوال کرے گا کیا تم محمد(ﷺ) کی نبوت کو مانتے ہو۔ تو وہ جواب دیں گے کہ ہم حضرت محمد(ﷺ)، عیسیٰ (علیہ السلام) رام، کرشن سب کو اپنے اپنے وقت کا نبی مانتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب نہیں کہ ہم ہندو، عیسائی یا محمدی ہوگئے۔
یہی ایک وجہ ہے کہ مسلمان، احمدی تحریک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ احمدیت ہی عربی تحریک اور اسلام کی دشمن ہے۔ خلافت تحریک میں بھی احمدیوں نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا۔ کیونکہ وہ خلافت کو ترکی یا عرب میں قائم کرنے کی بجائے قادیان میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات عام مسلمانوں کے لئے جوہر وقت پان اسلامزم وپان عربی سنگھٹن (اتحاد) کے خواب دیکھتے ہیں۔ کتنی ہی مایوس کن ہو۔ مگر ایک قوم پرست ہندو کے لئے باعث مسرت ہے۔‘‘ (مضمون ڈاکٹر شنکر داس مہرہ، بی۔ایس۔سی، ایم۔بی۔بی۔ایس مندرجہ لالہ لاجپت رائے کا اخبار بندے ماترم مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۳۱ئ)
مسلمانوں کی طرف سے بیداری کا ثبوت
اس بات پر زیادہ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان میں برطانوی امپریلزم آئندہ جگہ چھوڑ کر اپنی مسند پہ ہندو امپریلزم کو بٹھانا چاہتا تھا۔ اس لئے انگریز آتے جاتے خود کاشتہ پودے کو ہندو مالی کے سپرد کرنا چاہتا تھا اور ہوا بھی یہی۔ مسلمانوں نے گہری نیند سے کروٹ لی اور اﷲتعالیٰ غریق رحمت کرے مرحوم جسٹس مرزاظفر علی کو اور مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ کو جنہوں نے علامہ اقبالؒ کو توجہ دلائی۔ چنانچہ جسٹس سرظفر علی ریٹائرڈ جج ہائیکورٹ پنجاب، گورنر پنجاب مسٹر ایمرسن کو ملے اور علامہ اقبالؒ کے جرأت مندانہ فیصلہ نے مسلمانوں کو اپنے مارآستیں سے آگاہ کیا۔ چنانچہ علامہ اقبالؒ اور چوہدری افضل حق مرحوم سابق ایم۔ایل۔سی کی کوششوں سے مرزامحمود خلیفہ قادیان کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے بنابریں برطرف کیاگیا کہ مسلمانوں کی انجمن کا کوئی مرزائی رکن نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مرزائی جماعت یعنی فرقہ احمدیہ نے مسلمانوں سے ہر معاملہ میں خود علیحدگی اختیار کر کے مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی زخموں پہ نمک پاشی کی ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی مسٹر جلال الدین شمس مرزائی کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سیکرٹری شپ سے بھی برطرف کر دیا گیا اور تمام مرزائی ممبر اس اسلامی انجمن سے نکال دئیے گئے اور بعدازاں انجمن حمایت اسلام لاہور جو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعمیری انجمن ہے۔ اس کی رکنیت سے