تلے جمع ہو جاؤ۔ اگر نہیں آؤ گے تو خدا تم کو قیامت تک نہیں بخشے گا۔ دوزخی ہو جاؤ گے۔ میں مرزاقادیانی کے اس اعلان کی صداقت یا بطالت پہ بحث کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ مرزائی مسلمان بننے سے مسلمانوں میں کیا تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ ایک مرزائی کا عقیدہ ہے کہ:
۱…
خدا سمے سمے (وقتاً فوقتاً) لوگوں کی رہبری کے لئے ایک انسان پیدا کرتا ہے۔ جو اس وقت کا نبی ہوتا ہے۔
۲…
خدا نے عرب کے لوگوں میں ان کی اخلاقی گراوٹ کے زمانے میں حضرت محمد(ﷺ) کو نبی بنا کر بھیجا۔
۳…
حضرت محمد(ﷺ) کے بعد خدا کو ایک نبی کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس لئے مرزاقادیانی کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔
میرے قوم پرست بھائی سوال کریں گے کہ ان عقیدوں سے ہندوستانی قوم پرستی کا کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے پر اس کی شردھا اور عقیدت، رام، کرشن، وید، گیتا اور رامائن سے اٹھ کر قرآن اور عرب کی بھومی (زمین) میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔ حضرت محمد(ﷺ) میں اس کی عقیدت کم ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جہاں اس کی خلافت پہلے عرب اور ترکستان میں تھی۔ اب وہ خلافت قادیان میں آجاتی ہے اور مکہ اور مدینہ اس کے لئے روایتی مقامات رہ جاتے ہیں۔ کوئی بھی احمدی چاہے، عرب، ترکستان، ایران یا دنیا کے کسی گوشے میں بیٹھا ہو۔ وہ روحانی شکتی کے لئے قادیان کی طرف منہ کرتا ہے۔ قادیان کی زمین اس کے لئے پنیہ بھومی (سرزمین نجات) ہے اور اسی میں ہندوستان کی فضیلت کاراز پنہاں ہے۔ ہر احمدی کے لئے ہندوستان میں پریم ہوگا۔ کیونکہ قادیان ہندوستان میں ہے۔ مرزاقادیانی بھی ہندوستان میں تھے اور اب جتنے خلیفے اس فرقہ کی رہبری کر رہے ہیں۔ سب ہندوستانی ہیں۔
اعتراض ہوسکتا ہے کہ جب مرزائی قرآن کو الہامی مانتے ہیں تو پھر اسلام سے کیسے الگ ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب سکھوں کی موجودہ ہندوؤں سے علیحدگی ہے۔
گوروگرنتھ صاحب میں رام، کرشن، اندر، وشنو، سب ہندو دیوی دیوتاؤں کا ورنن (ذکر) آتا ہے۔ مگر کیا سکھوں نے رام کرشن کی مورتیوں کا کھنڈن نہیں کیا۔ گوردواروں سے