یہ سب کے سب محکوم یا نیم آزاد ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے ہمدردی ہونا قدرتی تھا۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ یہ سب پسماندہ ہیں اور انہیں اس کا احساس ہے کہ کل اگر روس اور امریکہ میں خوفناک تصادم ہوجائے تو یہ ان دو چکی کے پاٹوں کے درمیان بری طرح پس جائیں گے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بڑے ممالک انہیں للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ انہیں اپنے پنجے میں پکڑ کر رکھے اور ان کا آخری قطرۂ خون تک پی جائے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، فرانس ہو یا ڈچ یہ جمہوریت کے لاکھ دعوے کریں۔ آزادی، مساوات اور اخوت کے لاکھ نعرے لگائیں۔ لیکن ان سفید فام طاقتوں کے دماغ میں سودا سمایا ہوا ہے کہ انہیں سیہ فام اقوام پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مقصد کے لئے امریکہ برطانیہ اور فرانس ان ممالک کے کٹھ پتلی حکمرانوں کو بساط سیاست کا مہرہ بنا کر عوام کے خلاف انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ مصر میں یہی ہوا۔ ایران میں اسی کی ناکام کوشش کی گئی اور تیونس میں یہی ہورہا ہے۔ مگر ان ممالک میں اپنے حکمرانوں کے برخلاف آزادی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مصر میں انگریزوں سے نفرت مصریوں کا دوسرا مذہب ہے۔ تیونس ومراکش میں مجاہدین اپنے خون سے نئی تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔ فرانس، برطانیہ، ہالینڈ کو اس کا احساس ہے کہ ان ممالک کے عوام کی مرضی کے بغیر ان پر آسانی سے نہ حکومت کی جاسکتی ہے۔ نہ کوئی دفاعی منصوبہ ان کے سرزبردستی تھوپا جاسکتا ہے۔ مشترکہ خطرے نے ان سب کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور سب کو اس کا احساس ہوچلا ہے کہ اگر ان میں اتحاد ہو تو وہ دونوں بلاکوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ لیکن اگر یہ بکھرے رہے تو پھر انہیں ہرطاقت بڑی آسانی سے کچل دے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت کوئی قیادت کے فرائض انجام دے۔ بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹے، تسبیح کے ان بکھرے دانوں کو رشتۂ اخوت میں پروئے۔ باہمی مالی، سیاسی واقتصادی امداد کا باقاعدہ پروگرام بنائے۔ اس طرح اگر یہ تمام ممالک ایک بلاک کی شکل بنالیں تو یہ بلاک عالمی سیاست میں توازن قوت قائم رکھ سکے گا۔
اس قیادت کے فرائض پاکستان کو انجام دینے چاہئیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اینگلو امریکی بلاک کے اثر سے بالکل آزاد ہو جائیں اور ہمارے ساتھی ہمیں اس شبہ کی نظروں سے نہ دیکھیں کہ ہمارا ہر اقدام دراصل کسی بری طاقت کے اشارے پر ہے۔ اسی میں چھوٹی اقوام کی فلاح ہے۔ اسی طرح پاکستان طاقتور بن سکتا ہے اور اس طرح امن عالم برقرار رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
(روزنامہ احسان لاہور مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۵۲ئ)