واضح رہے کہ جب خان لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے فوراً ہی بعد ڈاکٹر گراہم کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو پاکستان کے تمام اخبارات نے جن میں مرکزی حکومت کا نیم سرکاری ترجمان ڈان بھی شامل تھا۔ اس رپورٹ کو زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ڈاکٹر گراہم کی رپورٹ حد درجہ غیراطمینان بخش ہے۔ دوسری طرف اتحادی انجمن میں ہندوستان کے مستقل مندوب مسٹر بی۔این راؤ نے اعلان کیا تھا کہ ڈاکٹر گراہم کی رپورٹ منصفانہ ہے۔ ہندوستانی اخبارات نے بھی اس رپورٹ کی تعریف کی تھی۔ اب ظفر اﷲ خان صاحب ہندوستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر گراہم کی تجویز کو منظور کر کے قضیہ کشمیر کو ختم کر دے۔ گویا موصوف کو ڈاکٹر گراہم کے کارناموں سے اتفاق ہے۔ ہم حیران ہیں کہ آخر یہ کیا بوالعجبی ہے اور سرظفر اﷲ خان کا مقصد کیا ہے؟
موصوف نے سویز اور سوڈان کی بابت عوام پاکستان کے مؤقف پر ضرب کاری رسید کی ہے اور وہ اس طرح کہ انہوں نے اب تک مصر کے اس مطالبے کی تائید نہیں کی کہ سویز اور سوڈان سے گورا فوج ہٹ جائے اور سوڈان میں غیرجانبدارانہ رائے شماری ہو۔ حالانکہ عالمی رائے عامہ کے سامنے کشمیر کی بابت اس ملک کے مؤقف کو مضبوط اور استوار کرنے کے لئے مصر کے مذکورہ بالا مطالبے کی تائید بہت ضروری تھی۔ کیونکہ کشمیر اور سویز وسوڈان دونوں جگہ مطالبے کی نوعیت سو فیصدی ایک ہے۔ اب موصوف کشمیر کے مسئلے پر ڈاکٹر گراہم کی مساعی جمیلہ کی تعریف کر بیٹھے ہیں۔ جسے ہندوستانی نمائندہ بی۔این راؤ کو بھی اتفاق ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ آخر سرظفر اﷲ خان صاحب پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کو کدھر لئے جارہے ہیں۔ خان لیاقت علی خان کی شہادت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد اہم بین الاقوامی معاملات پر ہمارے مؤقف اور ہماری حکمت عملی میں یہ خطرناک پھسلن کیوں پیدا ہوگیا ہے؟ ہماری پارلیمنٹ میں ایک ایسے سوال پر بحث کرنے سے اراکین کو کیوں روک دیا جاتا ہے۔ جس سے برطانیہ کے مفادات وابستہ ہوں؟
ایک اور اطلاع ہے جس کا تعلق مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتحال سے ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ کی پراسرار مشتبہ مشکوک قسم کی سرگرمیوں پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ مصر مشرق وسطیٰ کے اینگلو امریکی دفاع کی تجویز کو اس بناء پر ٹھکرا چکا ہے کہ اس تجویز کے مطابق مصر کو اپنے علاقے میں ایک چھوڑ کئی ممالک کی گورا فوج کے قیام وطعام کا بندوبست کرنا پڑتا۔ لیکن برطانیہ کے محکمہ خارجہ