بہانے ان ممالک میں اپنے قدم جما رہا ہے اور جو لوگ امریکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ جب کبھی لاکھوں کرڑوں ڈالر کی امداد کے معاہدے ہوتے ہیں تو اس کا اخلاقی دباؤ کیا ہوتا ہے۔ امریکہ کے پاس قارون کا خزانہ تو ہے نہیں، کہ وہ یونہی لٹاتا پھرے۔ نہ اس کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے ڈالر کو نچھاور کرے۔ نہ اتنا بے وقوف ہے کہ کسی مقصد کے بغیر یہ دولت خرچ کرے۔ ترکیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ترکیہ حلق تک ڈالر نگل چکا ہے اور اب ترکیہ کے تمام ہوائی اڈے وغیرہ امریکہ ہی کے قبضے میں ہیں۔ اسی طرح مختلف نوع کے علاقائی معاہدوں کی تجاویز کا مقصد بھی یہی ہے کہ روس کے خلاف ان ممالک کو اپنے تحت لایا جائے۔ اس نوع کی امداد دراصل ایک تمہید ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک اس چپقلش میں اینگلو امریکی بلاک کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا اور بڑے سستے داموں اس احساس کے بعد کہ پاکستان تو بہرحال ہمارا بندہ بے دام ہے۔ امریکہ نے ہمارے پڑوسی مملکت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور ایک ہوشیار ومکار حسینہ کی طرح بھارت نے جو بیک وقت دو رقیبوں کی دلداری کر رہا تھا۔ اپنے سودے باز عاشق سے بڑے اونچے داموں سودا طے کیا اور امریکہ نے اس احساس کے ساتھی یہ سودا طے کیا کہ بھارت کی دوستی جنوبی مشرقی ایشیاء کے استحکام کے لئے از حد ضروری ہے۔
ان حالات میں ہمارا قطعاً یہ مشورہ نہیں ہے کہ ہم بھی بھارت کی تقلید کریں۔ ہماری قیمت ووقعت اس وقت تک ہی ہے جب تک ہم دونوں بلاکوں کے اثر سے آزاد ہیں۔ جب تک ہم بین الاقوامی سیاست میں ایک آزاد وغیرجانبدار طاقت کی حیثیت سے نہ ابھریں گے۔ ہمیں امریکہ مٹی کا مادھو سمجھتا رہے گا اور روس ہم پر امریکہ کے خیمہ بردار کی پھبتی کستا رہے گا۔ اس لئے اوّل تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یک بارگی اینگلو امریکی بلاک کے ریشمی بندھنوں کو توڑ کر اور اس سے قطع تعلق کر کے الگ کھڑے ہوں۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوگا کہ ہم یا ہمارے ایسے ساتھ جو کسی بلاک سے تعلق رکھے بغیر آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ کیا کریں؟
U.N.O کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جہاں اب تک تو دوپاور بلاکوں میں رسہ کشی جاری رہتی تھی۔ لیکن وہاں چھوٹی قوموں کا ایک اور بلاک ابھرا ہے۔ جو عرب ایشیاء اور افریقہ کی چھوٹی اقوام پر مشتمل ہے۔ حالات نے ان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ اس لئے کہ ان کی تاریخ ایک سی رہی ہے۔ یہ تمام ممالک یا تو کسی نہ کسی مغربی طاقت کے زیراثر ہیں یا رہے ہیں۔