پورا پورا ثبوت دے دیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہیں اور ان حالات میں موسیو جیکب ملک کا یہ الزام ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ وبرطانیہ اپنے خصوصی سامراجی مقاصد کے لئے کشمیر کے بارے میں ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مخلص امریکہ وبرطانیہ کی دوستی کی خاطر ہم کشمیر قربان کر دیں گے؟
دفتر خارجہ کی طرف سے کشمیر کے بارے میں ہمیشہ یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دنیا کی رائے عامہ ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن جو رائے عامہ ہمیں کشمیر دلانہ سکے۔ اسے لے کر ہم کیا کریں؟
کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم ہر دو بلاکوں سے اپنے تعلقات مساوی طور پر قائم کریں؟ اس کے لئے ابتدائی اقدام کے طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ روس سے تجارتی تعلقات قائم کئے جائیں۔ ہمارے ثقافتی وفد روس جائیں تو ہم روس کے ثقافتی وفد کو مدعو کریں۔ اس کے بعد بین الاقوامی امور میں ہم اس کی کوشش کریں کہ ہمارے پالیسی کا جھکاؤ محض امریکہ اور برطانیہ ہی کی طرف نہ ہو۔‘‘ (روزنامہ احسان لاہور مورخہ ۲؍اپریل ۱۹۵۲ئ)
ہماری خارجہ پالیسی
’’کل ہم نے اپنی موجودہ خارجہ پالیسی کے مضمرات اور نتائج پر بحث کرتے ہوئے یہ رائے دی تھی کہ ہمیں ایک تو اینگلو امریکی بلاک کے حلقۂ اثر سے آزاد ہونا چاہئے اور دوسرے یہ کہ تدریجی طور پر دوسرے بلاک سے بھی تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اینگلو امریکی بلاک کے چنگل سے نکل کر روسی بلاک کے چنگل میں جا پھنسیں۔ مقصد یہ تھا کہ ہم کچھ اس طرح آزاد ہو جائیں کہ ان دو بلاکوں کے تعلق سے اپنی غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے بھی ان سے دوستانہ مراسم قائم رکھیں۔
آج اگر ہم دنیا کی صورتحال کا بین الاقوامی حالات کی روشنی میں مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ جہاں تک مشرق بالخصوص مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کا تعلق ہے۔ اس وقت امریکہ اور روس دونوں اس سے دوستی کے خواہشمند ہیں۔ ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کو اپنے حلقہ اثر میں لے آئے۔ امریکہ اور روس ہر دو کی یہ خواہش ہے کہ اس خطہ ارض کے ممالک سے تجارتی وثقافتی تعلقات قائم کریں۔ بلکہ امریکہ تو اس معاملہ میں ایک قدم آگے بڑھا چکا ہے۔ مارشل امداد چہار نقاطی پروگرام اور اسی طرح پسماندہ ممالک کی معاشی امداد کے