متعلق عبدالرحمن عظام پاشا سیکرٹری جنرل عرب لیگ نے کوئی اچھے تاثرات ظاہر نہیں کئے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے اسلامی ممالک اپنے اپنے نمائندے بھیجیں اور پھر ایسی مشاورتی کونسل کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن عرب لیگ کے طرز عمل سے پتہ چلتا ہے کہ شاید مصر اسے شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے اور اس کا اندیشہ ہے کہ کہیں اس کا حشر بھی پچھلی کانفرنسوں کا سا نہ ہو۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے سارے عرب ممالک اینگلو امریکی بلاک کے استعمار سے بیزار ہیں اور اس کے چنگل سے نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہی حال تیونس، مراکش اور الجیریا کا ہے۔ یہ تمام ممالک آزادی چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کی امداد کے بھی ممتنی ہیں۔
لیکن انہیں اس کا احساس ہے کہ پاکستان ابھی تک اینگلو امریکی بلاک کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہے۔ اس لئے کھل کر میدان میں نہیں آسکتا۔ اس کی ہمدردیاں یا تو زبانی رہیں گی یا قراردادوں تک۔ عملی طور پر پاکستان کچھ نہیں کرتا اور اگر کچھ کرتا ہے تو انہیں اس کا شبہ ہے کہ اینگلو امریکی بلاک کا طرفدار ہونے کی وجہ سے اس کا ہر پلان اور ہر منصوبہ بہت ممکن ہے۔ امریکہ وبرطانیہ کے اشارے پر ہو اور اس طرح کہیں وہ امریکی سامراج کے بچھائے ہوئے دام ہمرنگ زمین میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ مصر ہماری ہمدردی کا شکریہ تو ادا کرتا ہے۔ لیکن یہ شکریہ رسمی معلوم ہوتا ہے۔ انڈونیشیا کی طرح مصر بھی بھارت ہی کی طرف زیادہ مائل رہتا ہے۔ ابھی چند ہفتے ہوئے ہمارے وزیرخارجہ نے اسرائیل اور عرب ممالک کے اتحاد کی بابت ایک بیان قاہرہ میں دیا تھا۔ جس پر اسلامی ممالک میں بڑی لے دے ہوئی۔ ان حالات میں مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کی حد تک ہمیں اندیشہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ جب تک ہم اسلامی ممالک کے اتحاد کے لئے محض مذہب کو وسیلہ بناتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی کے ساتھ ساتھ اقتصادی اساس پر بھی اتحاد ہو۔ ان ممالک کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ عوام کو ساتھ لیا جائے۔ ایگلو امریکی بلاک کے حلقہ اثر سے آزاد ہوکر ان ممالک کی قیادت کی جائے۔ ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا ہے۔ کشمیر کے سلسلہ میں ہم نے برطانیہ وامریکہ اور ان کی مصلحتوں کا دوسرا نام U.N.O پر بھروسہ کر کے دیکھا کہ ایک دو نہیں پورے پانچ سال سے ہم ان کی روش کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اور U.N.O نے اپنی روش سے اس امر کا