ہے کہ مصر، ایران اور تیونس کے تعلق سے پاکستان کی پالیسی میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ لیکن پالیسی وہی کامیاب ہے۔ جس کے نتائج بھی کامیاب برآمد ہوں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جاپان سے معاہدے کے سلسلہ میں ہم نے اینگلو امریکی بلاک کی خیمہ برداری کی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ لیبیا سے بیرونی افواج کے تخلیئے کی ہم نے مخالفت کی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج ہم نے روس سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے۔
درآنحالیکہ ہمارا یہ ادّعا ہے کہ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کریں گے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کوریا میں ہم نے ۳۸ویں عرض بلد کو عبور کرنے کی سفارش کی تھی؟ اور کیا یہ ساری باتیں اس امر کی غمازی نہیں کرتیں کہ اسی پالیسی کے اختیار کرنے میں امریکہ وبرطانیہ کا فائدہ تھا؟ اور اینگلو امریکی بلاک کی رضا جوئی جو ہم نے حاصل کی آخر کس قیمت پر؟
ہمارا حریف آج بھارت ہے جس کا کشمیر، مانا ودر اور جونا گڑھ پر قبضۂ غاصبانہ ہے۔ مگر امریکہ وبرطانیہ اسی بھارت کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اس کی جمہوریت کے گیت گائے جارہے ہیں۔ اسے اربوں روپوں کی امداد دی جارہی ہے۔ درآنحالیکہ بھارت جاپان کے معاہدے میں اینگلو امریکی بلاک کا شریک نہیں۔ چین کے بارے میں اس کی پالیسی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔ کوریا کے تعلق سے وہ امریکی حکمت عملی کے خلاف جاچکا ہے اور کئی امور میں وہ علانیہ روس کی طرف مائل ہے۔
اب آئیے مسلم ممالک کے تعلق سے ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالیں۔ ہم نے اسلامی ممالک کو اپنانے کی کوشش کی۔ مگر ہمارا پڑوسی اسلامی ملک افغانستان ہم سے خفا ہے اور یہاں بھی بھارت ہی کی پالیسی کامیاب رہی۔ ہم نے اسلامی بلاک کی تشکیل اور مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے بین الاقوامی اسلامی اقتصادی کانفرنس منعقد کی۔ جس کی زندگی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔ اس کے بعد موتمر عالم اسلامی کا انعقاد ہوا۔ لیکن یہ مؤتمر بھی صرف قراردادیں منظور کرنے تک ہی محدود رہی۔ پھر احتفال علمائے اسلام کا اجلاس ہوا۔ جس کا حشر بھی ممکن ہے۔ گذشتہ کانفرنسوں کا سا ہو اور اب مسلم ممالک کی مشاورتی کونسل کی تشکیل کے سلسلہ میں ایران، افغانستان، مصر، سعودی عرب، شرق اردن، یمن، لبنان، شام، عراق وشرق ہند کو مدعو کیاگیا ہے۔ ان میں سے ترکی ایران اور افغانستان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے