میاں صاحب نے آگے چل کر کہا کہ گذشتہ چھ ماہ میں چوہدری ظفر اﷲ نے ایران، مصر اور برطانیہ کے درمیان جو پارٹ ادا کیا ہے۔ وہ قابل مذمت ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس دعویٰ کا قدرتی تقاضہ یہ تھا کہ یہ ممالک اپنی آزادی کے لئے جو جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس میں ہم ان کی مدد کرتے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مدد تو کجا ہم اپنے موجودہ رویہ سے ان ممالک کو اور الٹا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سلسلۂ بیان جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے جو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستان نے ایران اور مصر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار تو ضرور کیا ہے۔ لیکن یہ ہمدردی کا اظہار جس طریقے پر کیاگیا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی برطانیہ اور امریکہ کا اشارہ ہی کام کر رہا ہے۔
میاں صاحب نے کہا کہ میں وزیرخارجہ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر برما کو ہتھیار بھیجے جاسکتے ہیں تو مصر کو کیوں نہیں بھیجے جاسکتے؟ آخر میں میاں صاحب نے کہا کہ وزیرخارجہ کا گذشتہ تیس سال کا ریکارڈ یہی ہے کہ وہ برطانوی سامراج کے ساتھ چمٹے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کی خدمات سے ایک وکیل کی حیثیت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ پیسے دے کر ان سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ جس طرح پیسے لے کر وہ ساری عمر برطانیہ کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا کام کرنے سے بھی انکار نہیں کریں گے۔‘‘
(ہفت روزہ حکومت کراچی مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۵۲ئ)
ہماری خارجہ پالیسی
’’پاک پارلیمان میں جب ہماری خارجہ پالیسی ہدف تنقید بنائی گئی اور اس پر کڑی نکتہ چینی کی گئی تو پارلیمان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہمارے وزیرخارجہ چوہدری ظفر اﷲ خان نے ان اعتراضات کا اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا اور اس امر کی تردید فرمانے کی کوشش کی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اینگلو امریکی بلاک کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنی تقریر میں یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی کہ ہماری خارجہ پالیسی بالکل آزاد ہے۔
ہم اس یقین آفرینی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہماری عین تمنا یہ ہے کہ پاکستان حقیقتاً اپنی پالیسی میں آزاد رہے کہ ایک آزاد مملکت کے یہی شایان شان ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے