کہ ملک کی خارجہ پالیسی غیرملکی اثر سے آزاد کی جائے اور امریکہ اور برطانیہ کو اپنا مائی باپ نہ سمجھا جائے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بڑی شرمناک ہے۔ جس سے غیرملکوں کی نظر میں پاکستان کا وقار گرگیا ہے۔ آج تقریباً تمام مقررین نے مسئلہ کشمیر کے تصفیہ میں تاخیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر اب اس تصفیہ میں مزید دیر لگائی جائے تو پاکستان اقوام متحدہ کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے۔
میاں افتخار الدین نے اپنی تقریر میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ پاکستان کی خارجی پالیسی کسی طرح سامراجی طاقتوں کے اشارہ اور ان کے مفاد کے مطابق چل رہی ہے۔ چوہدری ظفر اﷲ کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ مطالبہ کیا کہ انہیں اپنے عہدہ سے برخاست کر دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کو جو قابل اور چالاک وزیر خارجہ کی نگرانی میں برطانوی سامراج کی آلۂ کار بن چکی ہے۔ وزارت خارجہ کے نام سے پکارنا اس لفظ کی توہین ہے۔
میاں صاحب نے کہا کہ مسلم گذشتہ پانچ چھ سوسال سے قعر مذلت میں گرے ہوئے ہیں۔ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور دوسری نوآبادیاتی طاقتوں نے اقتصادی، سیاسی اور سماجی ہر اعتبار سے ان کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا تھا۔ اتنے طویل عرصہ تک خواب غفلت میں پڑے رہنے کے بعد اب جب ان کے اندر بیداری کی ذرا سی لہر پیدا ہوئی ہے اور وہ مصر، ایران،تیونس، مراکش اور دوسرے علاقوں میں اپنے حقوق کی حفاظت میں سامراجی طاقتون کے پنجے سے نجات پانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں تو ہمارے وزیرخارجہ صاحب ان ممالک کو اپنے مسلمہ دشمنوں سے سمجھوتہ کر لینے کا مشورہ دے رہے ہیں ہم سے اچھی تو ان ممالک کی وہ نومسلم آبادی ہے جو کسی تاریخی مذہبی یا ثقافتی رشتہ نہ ہونے کے باوجود اپنے وطنی بھائیوں کی آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ بلکہ اسے سراہ بھی رہی ہے۔ شرم کی بات ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم ان ممالک کی مدد کرتے۔ ہمارے وزیرخارجہ برطانیہ کی مدد کر رہے ہیں اور وہ بھی چوری چھپے نہیں علانیہ۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مصر اور برطانیہ میں غیرجانبدار رہے۔ لیکن فریقین میں باعزت سمجھوتہ کرانے کی کوشش کرے گا۔ میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا غلامی اور آزادی سچائی اور جھوٹ نیک اور برے مقصد میں کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو کیا وزیرخارجہ کے کہنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مصر سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے جائز حقوق سے برطانیہ کی خاطر دستبردار ہو جائے۔