پاکستان کا آئین نہیں بنا۔ حالانکہ استحکام پاکستان کے لئے سب سے ضروری چیز آئین کا بنانا تھا۔ بقول معاصر زمیندا کے: ’’اگر آئین موجود ہوتا تو افتراق وتشتت کی گنجائش ہی کہاں تھی۔‘‘
آئین کی تکمیل کے سلسلے میں بارہا وعدے کئے گئے۔ لیکن اب تک ایک وعدہ بھی ایفا نہیںہوا اور آئین کا معاملہ ہے کہ برابر ٹلتا جارہا ہے۔ ایک نیا ملک جس نے بڑی جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی ہو۔ چارسال سے زیادہ عرصہ ہو جائے اور اس کا آئین نہ بنے اور اس پر اسی پرانے آئین کے مطابق حکومت ہو جو اجنبی تسلط کی یاد گار ہے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہوسکتی ہے۔
خارجہ پالیسی کا کسی واضح اصول پر مبنی نہ ہونا، قومی زبان کے معاملے میں مرکزی حکومت کا کوئی مثبت اقدام نہ کرنا، شہری آزادی کے معاملے میں کسی معین ضابطے کا عدم تعین اور سب سے زیادہ یہ کہ آئین کا نہ بنانا یہ ایسی چیزیں ہیں۔ جن کی وجہ سے پاکستان کی قومی پالیسی کا تعین نہیں ہورہا اور پاکستان کے مختلف حصوں میں ایک عام افراتفری پھیل رہی ہے۔ ضرورت ہے جیسا کہ معاصر زمیندار نے لکھا ہے کہ: ’’اس معاملے میں پنجاب اس نخل آزادی کو افتراق وانتشار کی ہولناک آندھیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کمربستہ ہو جائے اور قومی پالیسی کو وضع کرنے میں نمایاں حصہ لے۔‘‘
پنجاب پاکستان کا صرف بازوئے شمشیرزن نہیں بلکہ وہ اس کا دل اور دماغ بھی ہے اور خوش قسمتی سے پنجاب میں نہ قومی زبان کا جھگڑا ہے اور نہ پختونستان کا اور پاکستان کے اصول ومقاصد سے پنجاب کو سب سے زیادہ وابستگی بھی ہے۔ پنجاب کا بحیثیت پاکستان کے ایک اہم حصہ ہونے کا فرض ہے کہ وہ مرکز کو اس اہم ضرورت کی طرف متوجہ کرے اور اسے ایک واضح اور مثبت قومی پالیسی بنانے پر مجبور کرے۔‘‘ (افتتاحیہ آفاق مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۵۲ئ)
ڈاکٹر گراہم پھر ناکام ہوگئے
’’ڈاکٹر گراہم ایک مرتبہ پھر ناکام ہوگئے اور ان کو ناکام ہونا ہی تھا۔ یہ بات پہلے روز سے معلوم تھی۔ بجز ہمارے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اﷲ خان کے جنہوں نے ڈاکٹر گراہم کے تقرر کی اطلاع سنتے ہی پیش گوئی فرمائی تھی کہ اس مرتبہ ڈاکٹر گراہم کامیاب ہوںگے۔ قادیانی الہامات کی طرح چوہدری صاحب کا یہ ٹیوا بھی غلط ثابت ہوا۔ چوہدری صاحب ان لوگوں میں ہیں جو ہر گورے کو لیفٹیننٹ گورنر سمجھتے ہیں اور اس کی مافوق الفطرت صلاحیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔