لیکن جو لوگ ’’الہامات‘‘ پر نہیں بلکہ حقائق پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ پہلے روز سے جانتے تھے کہ ڈاکٹر گراہم کی کامیابی مشتبہ ہے۔
سلامتی کونسل نے ڈاکٹر گراہم کو دوبارہ اس لئے پاکستان اور بھارت کا سفر اختیار کرنے پر مقرر کیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین استصواب کشمیر کے سلسلے میں دو قابل حل مسائل پر گفتگو کریں۔ اوّل یہ کہ غیرجانبدارانہ استصواب کا ماحول تیار کرنے کے لئے متارکہ جنگ کی سرحدوں کے دونوں طرف دونوں ملکوں کی فوجوں کا تناسب کیا ہو۔ وہ چاہتے تھے۔ بھارت اس پر رضامند ہو جائے کہ یہ تناسب ۱۲ اور ۱۰ کا ہو اور دوسرے یہ کہ بھارت ناظم استصواب کے تقرر کو منظور کرلے۔ لیکن بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے دونوں تجویزوں کو نامنظور کردیا اور حالات کی گاڑی اسی جگہ کھڑی ہے۔ جہاں ڈاکٹر گراہم کی تشریف آوری سے پہلے تھی۔ ناکامی کے وجوہ کی تلاش کے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کے ارباب اختیار جانتے ہیں کہ استصواب میں ان کے مقاصد کی موت ہے۔ اس لئے وہ کوئی ایسی شرط قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ جس سے استصواب کے انعقاد کی نوبت آئے۔ ان کو سلامتی کونسل کے طرز عمل سے بھی شہ ملتی ہے۔ جو اس مسئلے کو ٹالتی چلی آرہی ہے اور اس کو عدل وانصاف کے نقطۂ نگاہ سے حل نہیں کرتی۔ بلکہ سیاسی اور قومی اغراض کو پیش نظر رکھتی ہے۔ یہ بات ہرشخص جانتا ہے۔ بجز ہمارے چوہدری ظفر اﷲ خان کے بھارت کو معلوم ہے کہ یہ معاملہ جتنا ملتوی ہوتا رہے۔ اتنا ہی اس کا فائدہ ہے۔ کشمیر کا دل وجگر اس کے قبضے میں ہے۔ اگر موجودہ صورتحال بھی برقرار رہے تو اسی کی جیت ہے اور یہ صورتحال انکار مصالحت ہی سے برقرار رہ سکتی ہے۔
ہمارے وزیرخارجہ کا حسن عقیدت بھی جو وہ سلامتی کونسل کے نمائندوں کے تدبر، حسن نیت، صلاحیت کار اور کامیابی کے بارے میں ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ اس میں حصہ دار ہے اور جب تک اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے وہ مامور رہیں گے۔ حالات بگڑتے ہی جائیں گے۔ جب تک پاکستان کی طرف سے سلامتتی کونسل اور اس کے نمائندوں کو پیشگی سند اعتبار اور ہدیہ عقیدت ملتا رہے گا۔ مجلس اقوام متحدہ ہندوستان کی نازبردراری میں مبتلا رہے گی۔ یہ وہی صورتحال ہے جس پر برہم ہوکر مسٹر لیاقت علی خان مرحوم نے ازراہ طعن کہا تھا کہ برطانیہ ہم کو گھڑے کی مچھلی اور گھر کی مرغی سمجھتا ہے۔ جب ہم ہر حال میں سلامتی کونسل اور اس کے نمائندوں سے خوش ہیں تو وہ بھارت کو ناراض کرنے والا کوئی قدم کیوں اٹھائیں۔‘‘
(روزنامہ تسنیم لاہور مورخہ ۲۷؍مارچ ۱۹۵۲ئ)