ہیں۔ بلکہ ترکی اخبار نویسوں کا ایک وفد جوآج کل بھارت میں گھوم رہا ہے۔ اس کے بعض ارکان نے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نکتہ چینی کی ہے اور یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اسلامی ملکوں میں سے ترکی ہماری خارجہ پالیسی سے متفق نہیں ہے اور ظاہر ہے ترکی کے بغیر اسلامی ملکوں کے اتحاد کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔
قاہرہ کی تازہ خبر ہے کہ عرب لیگ کے ارکان نے بھی چوہدری ظفر اﷲ خان کی تجویز کردہ اسلامی ملکوں کی مشاورتی کونسل کے متعلق زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ ان میں سے بعض اس اقدام کو کچھ اور معنی پہنا رہے ہیں اور مصر وشام ولبنان تو خاص طور پر اس قسم کی مشاورتی کونسل کے خلاف ہیں۔
یہ تو ہوا ہمارے وزیر خارجہ کی گذشتہ چار سال کی سیاسی سرگرمیوں کا انجام۔ جو ظاہر ہے اچھا خاصہ حسرت ناک ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں معاصر محترم زمیندار کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ: ’’پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کسی اصول یا ضابطے پر مبنی نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد قومی زبان کا مسئلہ آتا ہے۔ اس معاملے میں ایک طرف مسٹر نورالامین نے جس عدم تدبر، بے صبری اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اپنی جگہ کچھ کم قابل افسوس نہیں اور دوسری طرف پاکستان کی مرکزی حکومت جس تذبذب میں مبتلا ہے۔ وہ اچھا خاصہ تکلیف دہ ہے۔
ایک اور مسئلہ شہری آزادی کا ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک صوبے میں اخبار تک نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور جو کوئی زبان اعتراض کھولے۔ اسے سیفٹی ایکٹ میں دھر لیا جاتا ہے اور دوسرے صوبے میں تقریر کی بھی آزادی ہے اور تحریر کی بھی۔ حالانکہ دونوں صوبوں میں مسلم لیگ کی وزارتیں ہیں۔ جو قانوناً اور عملاً مرکزی مسلم لیگ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اب اگر پاکستان ایک وحدت ہے اور اس پر ایک ہی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی حکومت ہے تو ضروری ہے کہ جہاں تک نظم ونسق کے بنیادی اصول ہیں۔ ان میں تمام صوبائی حکومتیں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوں اور یہ نہ ہو کہ ایک صوبے میں تو نادر شاہی ہو اور دوسرے صوبے میں جمہوریت پر تقریریں کی جائیں۔ اس سلسلے میں معاصر زمیندار کا یہ کہنا بالکل بجا ہے۔
’’ابھی تک اتنا بھی طے نہیں ہوسکا کہ ہمارا ملک کس حد تک آزاد ہے اور اسے تحریر وتقریر کے معاملے میں اپنے عوام کو کس حد چھوڑ دینا ہے۔‘‘
اور سب سے بڑا معاملہ آئین کا ہے۔ چار سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا۔ لیکن اب تک