کہتے رہتے ہیں اور اسی بناء پر وہ اپنے کو پاکستان کے ۹۰فیصد عوام کا نمائندہ کہتے نہیں تھکتے۔
معاصر محترم نے سب سے پہلے پاکستان کی خارجی پالیسی پر تنقید فرمائی ہے۔ معاصر کے الفاظ میں: ’’خارجہ حکمت عملی کی مدافعت میں وزیر متعلقہ نے جو تقریر کی ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے جن ہدایات کو عملی جامہ پہنایا وہ کسی اصول یا ضابطے پر مبنی نہیں ہیں۔‘‘
بلکہ معاصر کے نزدیک ’’چونکہ تقسیم سے پہلے بھی ان کو وزارت خارجہ کی گدی پر بیٹھنے کا موقعہ ملا۔ اس لئے وہ اب بھی اس پر قابض رہنے کے حق دار ہیں اور خارجہ مسائل کے تصفیہ کے لئے انہوں نے جو راہ اختیار کی ہے۔ وہ چونکہ ان کی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بہترین ہے۔ اس لئے پاکستان کے عوام کو بھی اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔‘‘
معاصر موصوف کے ان الفاظ سے ممکن ہے خود وزیرخارجہ پاکستان تو شاید اختلاف کریں۔ لیکن جہاں تک پاکستان کے فہمیدہ طبقوں کا تعلق ہے۔ ان کا ایک فرد بھی اس سے اختلاف نہیں کرے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کی خارجی پالیسی ہر لحاظ سے ناکام ہوچکی ہے۔ ہم نے اینگلو امریکی بلاک سے ضرورت سے زیادہ دوستی کے تعلقات بڑھائے۔ لیکن اس دوستی سے ہمیں فائدہ کے بجائے الٹا نقصان ہوا۔ کیونکہ اس سے بھارت کی سیاسی اہمیت بڑھ گئی اور اسے اس بلاک نے منہ مانگی قیمت دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور جیسا کہ ڈان نے پچھلے دنوں لکھا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی اینگلو امریکی بلاک اب بھارت کی طرف جھک رہا ہے۔
ہم نے اسلامی بلاک بنانے کا نعرہ لگایا اور گذشتہ چار سالوں میں لاکھوں روپیہ ہوگا جو اسلامی ملکوں کے نمائندوں کو کراچی کی کانفرنسوں میں بلانے پر صرف کر دیا۔ لیکن اس سے بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا اور تو اور زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ہمارے وزیرخارجہ پیرس سے واپسی پر انقرہ، بیروت، دمشق اور قاہرہ تشریف لے گئے اور قاہرہ میں اسلامی ملکوں کو متحد کرنے کے متعلق انہوں نے ایک بیان بھی دیا تھا۔ اس کے بعد کراچی میں آکر اسلامی ملکوں کی ایک مشاورتی کونسل کی تشکیل کا اعلان بھی کیا اور اس ضمن میں یہ خبر بھی چھپی کہ اپریل میں تمام اسلامی ملکوں کی حکومتوں کے نمائندے کراچی میں آرہے ہیں۔ لیکن تین چار دن ہوئے ڈان میں ترکی کے ایک مشہور اخبار وطن کے ایڈیٹر کا ایک خط چھپا ہے۔ جس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سخت اعتراضات کئے گئے