اس کی تصدیق اس مکتوب سے بھی ہوتی ہے جو نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار مقیم کراچی نے اپنے اخبار میں درج کرایا ہے اور جس کا حوالہ ڈان کے سیاسی نامہ نگار نے بھی دیا ہے۔ اس مکتوب میں نامہ نگار لکھتا ہے: ’’امریکہ نے بالآخر فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کے لئے پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کو مستحکم کرنا اور اپنے ساتھ ملانا زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
اگر حکومت پاکستان کو ان تمام حقائق وواقعات کا علم ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں کب تک مبتلا رہے گی کہ مسئلہ کشمیر کو اب بھی پرامن ذرائع سے حل کرنا ممکن ہے؟ جہاں تک ہمیں یاد ہے۔ پاکستان کے اکابر ایک سے زائد مرتبہ اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان کے نقطہ نگاہ سے سکیورٹی کونسل کا وہ اجلاس جو گذشتہ جنوری میں منعقد ہوا آخری ہے۔ اس کے بعد پاکستان اگلا قدم اٹھانے پر مجبور ہوگا۔ لیکن کیا تین مہینے کا تجربہ ابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکا کہ کشمیر کے معاملہ میں اقوام متحدہ پر تکیہ رکھنا بے کار ہے۔
آخر حکومت پاکستان عوام سے یہ کب تک توقع رکھے گی کہ وہ کشمیر ایسے اہم اور قومی معاملہ کے سلسلہ میں برابر صبر وتحمل کا ثبوت دیتے رہیں؟ پاک پارلیمان میں بعض ارکان نے وزیرخارجہ چوہدری ظفر اﷲ خان کی ذات کو بھی مسئلہ کشمیر کے تصفیہ میں تاخیر وتعویق کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور ہمارے نزدیک یہ الزام بے بنیاد نہیں ہے۔ میاں افتخار الدین نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو موضوع تنقید بناتے ہوئے کہا ہے: ’’دوسرے وزراء سے تو میں یہ کہوں گا کہ اگر وہ حکومت کی پالیسی کو غلط سمجھتے ہیں تو اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں۔ لیکن سر ظفر اﷲ کے معاملے میں جنہوں نے بیس برس تک اپنے برطانوی آقاؤں کی وفادارنہ طور پر خدمت کی ہے۔ میں حکومت اور عوام سے مطالبہ کروں گا کہ انہیں سبکدوش کر دیا جائے۔ وہ برطانی حکومت کے دیرینہ کاسہ لیس ہیں اور خوشامد تملق ان کا ہمیشہ نصب العین رہا ہے۔
میاں افتخار الدین اگر پاکستان کی موجودہ حکومت کو انگریز کا پٹھو قرار دیتے رہتے ہیں تو اس کا سبب ان کی غیرمعمولی روس نوازی ہے۔ تاہم چوہدری ظفر اﷲ خان کے متعلق انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ مبالغہ آمیز نہیں ہوسکتا۔ چوہدری ظفر اﷲ خان اپنے مذہبی عقائد کی بناء پر بھی انگریز کو اپنا آقا ومولا سمجھنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ ہے کہ ڈپلومیسی کے میدان میں وہ آج تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ الحاج خواجہ ناظم الدین نے ان کی سیاسی فتوحات کے ثبوت میں بھارت کے ایک انگریزی اخبار کا حوالہ دیا ہے۔ اوّل تو جس شخص کی تعریف میں ڈالمیا کا اخبار رطب