سمجھیں۔ جو حضرت مسیح موعود کا جانشین ہو۔‘‘ (قادیانی فرقہ کا ایڈریس گورنر پنجاب مورخہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۱۹ئ)
ایک اعلان ’’بذریعہ اس اعلان کے پبلک کو مطلع کیا جاتا ہے کہ قادیان سے تعلق رکھنے والے کسی احمدی کا عقیدہ نہیں ہے کہ سلطان ٹرکی خلیفۃ المسلمین ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۲۰ئ)
پوپ بننے کی خواہش
’’میں صرف ہندوستان کے لوگوں کا خلیفہ ہی نہیں (تومان نہ مان میں تیرا مہمان۔ ہندوستان کے خود ساختہ خلیفہ) بلکہ خلیفہ ہوں۔ حضرت مسیح موعود کا۔ اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے۔ (سبحان اﷲ کیا خوب دلیل ہے۔ مصنف) عرب، ایران، چین، جاپان، یورپ، امریکہ، افریقہ، سماٹرا خود انگلستان کے لئے۔ غرضیکہ کل جہاں کے لوگوں کے لئے خلیفہ ہوں۔ اس بارے میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہ ہو۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۲ نمبر۵۴، ص۴، یکم؍نومبر ۱۹۳۴ئ)
(انگریز عاقل کو اشارہ کر دیا ہے اب اس کا کام ہے کہ خلیفہ قادیان کو پوپ بناوے۔ مصنف)
پوپ اور خلیفہ ایک ہیں
’’زمانہ وسطیٰ میں تو یہ قاعدہ تھا کہ جب بادشاہ تخت پر بیٹھا تو وہ پوپ کے پاس اپنی بادشاہت کی منظوری کے لئے چٹھی بھیجتا اور جب وہ اسے بادشاہ تسلیم کرتا تب وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا۔ عیسائی اپنا مذہبی پیشوا پوپ کو سمجھتے ہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ کے نزد، خلیفہ وقت اس کا مذہبی پیشوا ہے۔ پس جو بادشاہ بھی احمدی ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو خلیفہ وقت کا ماتحت اور اس کا نائب سمجھنے لگا۔ گو دنیاوی معاملات میں اس کے احکام نافذ نہ ہوں۔ مگر دینی معاملات میں حکومت احمدی خلیفہ کی ہی ہوگی۔‘‘
(خطبہ میاں محمود، مندرجہ الفضل قادیان ج۲۵ نمبر۱۹۹ ص۸،۹، مورخہ ۲۷؍اگست ۱۹۳۷ئ)
ریاست کی خواہش
’’احمدیوں کے پاس چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا نہیں۔ جہاں احمدی ہی احمدی ہوں۔ کم ازکم ایک علاقہ کو مرکز بنالو اور جب تک ایسا مرکز نہ ہو۔ جس میں کوئی غیر نہ ہو۔ اس وقت تک تم اپنے مطلب کے امور جاری نہیں کر سکتے اور نہ ہی اخلاق کی تعلیم ہوسکتی ہے۔ نہ پورے طور پر