قادیان ہے۔ لازمی ان کے ذہن پر اس کا بوجھ ہونا چاہئے۔ چنانچہ وہ اپنے اکثر نجی خطوں میں اس دماغی پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں۔ حالانکہ جن دنوں یہ خط تحریر کئے گئے۔ ان دنوں پاکستان کے مسلمان واہگہ کے اس پار بیٹھے خون کے آنسو رو رہے تھے۔ ایسے میں ظفر اﷲ کو اگر کچھ فکر تھی تو قادیان کی، اور ہونی بھی چاہئے۔ ایسے آدمی کو فوراً اپنے عہدے سے یا استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ یا پھر گورنمنٹ کو انہیں الگ کر دینا چاہئے۔ کیونکہ ان کو رات دن اپنے مقدس مقام کی فکر رہتی ہے۔ وہ امور سلطنت میں کیسے دلچسپی لے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک وہ کشمیر کے مقدمے میں پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں کر سکے۔ مندرجہ ذیل خطوط اخبار زمیندار اور آزاد میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان سب کا اصل موجود ہے۔ جانباز مرزا!
مورخہ ۶؍اگست ۱۹۵۲ئ، لائل پور
سرظفر اﷲ کے خطوط
پہلا خط
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
پیارے بشیر! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ،
میں بفضل اﷲ ۱۶کو یہاں پہنچ گیا تھا۔ ۱۴ کی صبح کو ناشتہ دمشق کیا۔ دوپہر کا کھانا استنبول کھایا۔ شام کا کھانا لندن چوہدری محمد اشرف صاحب کے یہاں۔ اسی موقع پر مسجد والوں کو حالات سے آگاہ کیا۔ رات ہوٹل میں بسر کی۔ ۱۵کی دوپہر کو لندن سے روانہ ہوئے۔ شا کو Iceland پہنچے۔ شام کا کھانا یہاں کھایا۔ انجن میں نقص ہونے کی وجہ سے ۵گھنٹے یہاں ٹھہرنا پڑا۔ نصف شب یہاں سے روانہ ہوکر دوسرے دن قبل دوپہر نیویارک پہنچ گئے۔ ۱۹کو میں اپنے معائنہ کے لئے بوسٹن گیا اور ۲۲کو یہان واپس آگیا۔ ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ بحمد اﷲ تسلی بخش ہے۔ یہاں پہنچتے ہی میں نے خلیل احمد ناصر کو فون کیا تھا۔ انہیں ان دنوں تعطیل تھی۔ وہ ۱۷کی صبح کو یہاں پہنچ گئے۔ پرسوں شام واپس شکاگو گئے ہیں۔ U.N.O کی کاروائی میں ابھی تک ہم استحقاقاً کوئی حصہ نہیں لے سکتے۔ کیونکہ ابھی ہمارے داخلہ کی رسوم مکمل نہیں ہوسکیں۔ کل انشاء اﷲ ہمارا داخلہ ہوگا۔ موسم یہاں بہت خوشگوار ہے اور باقی حالات بھی اچھے ہیں۔ لیکن قادیان کے حالات