۳… ملا احتشام الحق سے۔
۴… ملا محمد شفیع سے۔
۵… ملا مودودی (پانچویں سوار سے)‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۵۲ئ)
پھر فدایان قادیان کے نام سے مرزائیوں کی ایک انقلابی پارٹی کا ظہور میں آنا اور ساتھ ہی پنجاب کے مقتدر علماء کرام مولانا احمد علی، مولانا ابوالحسنات ودیگر رہنمایان ملت کو قتل کی دھمکیاں دینا۔ گو کفر میں اتنی جسارت نہیں، کفر ہمیشہ بزدل ہوتا ہے۔ لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ کی سی۔آئی۔ڈی کہاں ہے؟ جو مرزابشیرالدین محمود کو گرفتار نہیں کرتی۔ وہ لوگوں کو قتل پر ابھار رہا ہے۔ پھر یہ کوئی خفیہ سازش نہیں۔ بلکہ واضح طور پر ۱۵؍جولائی کے الفضل اور ۴؍اگست کے زمیندار میں یہ تحریریں موجود ہیں۔ نہ جانے ہماری گورنمنٹ کی نظر سے ایسی خونی تحریریں کیوں اوجھل رہتی ہیں۔ اگر نہیں تو کیا وہ ایسی تحریروں کو امن پسند خیال کرتی ہے؟ حالانکہ تشدد کی واضح اور کھلم کھلا تبلیغ ہورہی ہے۔ پنجاب پولیس کیوں غافل ہے۔ اگر کسی مرزائی کو مسلمانوں کے ہاتھوں ببول کا کانٹا بھی چبھ جائے تو پاکستان گورنمنٹ کی ساری مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ لیکن بشیرالدین محمود ربوہ میں بیٹھ کر اشتعال انگیز تقاریر کر رہا ہے۔ انقلابی پارٹیاں بن رہی ہیں۔ لوگوں کو قتل پر ابھارا جارہا ہے اور پھر مرزابشیرالدین محمود کی زندگی کا آئینہ اس قدر روشن ہے کہ اس میں سے اس کے گذشتہ کردار کے خط وخال واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ باوجود اس کے پنجاب پولیس خاموش ہے۔ کوئی تحقیق نہیں، کوئی گرفتاری نہیں۔ سارا ملک چیخ رہا ہے ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
وزیر خارجہ
چوہدری سرظفر اﷲ پر تمام پاکستان عدم اعتماد کا اظہار کر چکا ہے اور خود پاکستان گورنمنٹ کے ذمہ دار افراد وزیرخارجہ کی گذشتہ کار گذاریوں سے خوش نہیں اور ہو بھی کیسے سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسے کام تو یکسوئی کے ساتھ ہی ہوسکتے ہیں۔ اگر ذہن متوجہ نہ ہو تو کوئی کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔ چوہدری سرظفر اﷲ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ وہ مرزائی ہیں اور قادیان ان کا مقدس مقام ہے۔ وہ ہندوستان کے قبضے میں ہے۔ ان کے نبی (غلام احمد قادیانی) کی قبر ابھی تک