یہ ایک الزام تھا جو گورنمنٹ پنجاب نے مجلس احرار کے دامن پر لگایا تھا۔ حالانکہ دو تین برس کے اندر اندر جس قدر مرزائی پنجاب میں مارے گئے۔ ان تمام کے مقدمات کی اگر تحقیق کی جائے تو یقینا احرار کا دامن اس سلسلہ میں کورا نظر آئے گا۔ اگر وہ مذہب کے سوال پر قتل ہوئے ہیں یا خانگی جھگڑوں کی بناء پر تو دونوں صورتوں میں مجلس احرار کیوں مجرم ہے؟ کیا اچھا ہوتا کہ پنجاب گورنمنٹ مجلس احرار پر تشدد کا الزام لگانے سے پہلے ان کی زندگی کا مطالعہ کرتی۔ انہیں یقین ہوجاتا کہ احرار رہنماء ایسے نہیں ہیں جیسے کہ انہیں خیال کر لیا گیا ہے۔ میاں ممتاز دولتانہ اگر تھوڑی سی ہمت کر کے انگریز سے دریافت کرتے تو باوجودیکہ احرار انگریز کے آج بھی ویسے ہی دشمن ہیں۔ جیسے کل تھے۔ یقینا افرنگی کی رائے ایسی نہ ہوتی جیسی پنجاب گورنمنٹ کی ہے۔
احرار اپنی پشت پر ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ اس تاریخ کے ایک ایک ورق پر ہمارے خون کے چھینٹے ہنوز اسی طرح اجاگر ہیں جیسے کہ ان کی رنگت روز اوّل میں تھی۔ لیکن تیس برس کی ساری تاریخ میں ایک نشان ایسا نہیں جو اجنبی کے خون کا ہو یا وہ خون ہمارے ہاتھوں سے گرا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر ڈگلس ینگ، بخاری کو اپنی عدالت سے رہا کرنے کی بجائے پھانسی کے تختے پر کھڑا کرتے۔ باوجود اس کے اس کیس میں پنجاب کا فرعون مزاج وزیراعظم سرسکندر حیات ایک فریق کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے برعکس ربوہ کے ڈکٹیٹر بشیرالدین محمود کے جسم پر ایسے بے گناہ لوگوں کے خون کے داغ چمک رہے ہیں۔ جو رازہادرون پردہ سے آشنا ہوچکے تھے۔ ایسے مجرموں کی فہرست اس قدر طویل ہے۔ اگر حکومت پاکستان اس گرہ کو کھولنا چاہے تو اسے کوئی دقت محسوس نہ ہوگی۔ ہاں ناخن تدبیر کو ذرا سی حرکت دینی پڑے گی۔ فخرالدین ملتانی اور مولوی محمد حسین بٹالوی کا خون تو ابھی کل کی بات ہے۔ شاید قادیان کے بازاروں سے یہ خون ابھی خشک نہ ہوا ہو۔
ممکن ہے اسے داستان سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ لیکن بشیرالدین محمود تو اب بھی کہہ رہا ہے: ’’ہاں! آخری وقت آپہنچا۔ ان تمام علماء حق کے خون کا بدلہ لینے کا جنہیں شروع سے لے کر آج تک یہ خونی ملا قتل کرواتے آئے ہیں۔ ان سب کے خون کا بدلہ لیا جاائے گا۔
۱… عطاء اﷲ شاہ بخاری سے۔
۲… ملا بدایونی سے۔