کیا بشیرالدین محمود نے اپنے آپ کو یوسف کہہ کر حضور سرور کائناتﷺ کے جدامجد کی توہین نہیں کی؟ اور اپنے سیاسی عزائم کا اظہار نہیں کیا۔ اب پہلی دوسری اور تیسری کڑی کو ملا کر اندازہ کریں کہ ملک کے باہر اور اندرون ملک یہودیوں کے ساتھ مل کر مرزائی کیا نقشہ تجویز کر رہا ہے۔ اسلامی ممالک کو یورپ کے نقشے میں داخل کرنے کے اس سے زیادہ واضح دلائل اور کیا ہوسکتے ہیں۔
لیکن میرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اپنے لاڈلے وزیرخارجہ کی ان حرکات کے بعد بھی اسے سرپر چڑھا رہے ہیں اور وہ استعفیٰ دینا چاہتا بھی ہے تو منظور نہیں کیا جاتا۔ کراچی ۲۱؍مئی معلوم ہوا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ چوہدری سرظفر اﷲ خان نے پاکستان کیبنٹ سے اپنا استعفیٰ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے حوالے کر دیا ہے اور وزیراعظم اور گورنر جنرل غلام محمد کو مطلع کر دیا ہے کہ اگر پاکستان میں قادیانیوں کی حفاظت کا انتظام نہ کیاگیا تو وہ پاکستان سے نکل جانے پر مجبور ہوں گے۔‘‘ (ویر بھارت مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۵۱ئ)
اس سے بیشتر روزمانہ آزاد لاہور اپنی۱۶؍مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں بمبئی کے ایک انگریزی اخبار کے حوالے سے اس راز کا انکشار کر چکا ہے کہ دوسرے ممالک کے وزیراعظم کی کانفرنس کی ناکامی کے بعد سرظفر اﷲ کشمیر کے متعلق پھر سے زیادہ تیز اور سخت الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ اسے پاکستان کیبنٹ نے پسند نہیں کیا۔ اس کشمکش کے بعد چوہدری صاحب نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تو اس پر گورنر جنرل وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ چوہدری صاحب کا استعفیٰ منظور کر لینا چاہئے۔ لیکن خواجہ ناظم الدین نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
نوٹ: دونوں اخبارات کی تحریروں کو شائع ہوئے تادم تحریر ۱۶دن ہوچکے ہیں۔ لیکن سرکاری طور پر ان کی کوئی تردید نہیں ہوئی۔ ایک طرف خواجہ صاحب کی شرافت کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف بقول اخبار زمیندار وزیرخارجہ یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔
’’کراچی ۲۳؍مئی۔ نمائندہ زمیندار کو معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جہانگیر پارک کراچی میں جماعت احمدیہ کے پہلے دن کے اجلاس میں ہنگامہ کے بعد پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور وزیر صنعت سردار عبدالرب نشتر نے وزیر خارجہ چوہدری سرظفر اﷲ خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اگلے روز مرزائیوں کے جلسے میں شرکت اور تقریر نہ کریں۔ مگر ان دونوں