ان حالات کے پیش نظر اگر یہ کہہ دیا جائے کہ پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹروں میں انگریز اور امریکہ کے جاسوس کام کر رہے ہیں جن کی رہنمائی مرزابشیرالدین محمود کر رہا ہے تو حقیقت سے بعید نہیں۔ آئیے اس سلسلے کی تیسری کڑی کے چند واقعات پر غور کریں۔ غالباً ۱۹۵۰ء میں بشیرالدین محمودپر ایک مرزائی نے سوال کیا:
ہم قادیان کب واپس جائیں گے۔
جواب میں بشیرالدین محمود نے کہا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ قادیان کب واپس جائیں گے۔ میں کہتا ہوں ہمیں کوئی یہاں رہنے بھی دے گا کہ نہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں ہمیں اپنی لڑکیوں کے رشتے باہر کے ملکوں میں کرنے چاہئیں۔ تاکہ اگر ہم یہاں سے نکال دئیے جائیں تو ہمارے لئے وہاں پناہ کی جگہ تو ہو۔
اس سوال اور جواب سے بظاہر ایسا معلوم محسوس ہوتا تھا کہ مرزائیت دم توڑ رہی ہے اور اب دم دبا کر بھاگنے والی ہے۔ لیکن یکایکی مولانا احتشام الحق کے بیان نے کایا پلٹ دی۔ وہ فرماتے ہیں۔
رمضان کے دن تھے۔ میں روزے کی حالت میں اعتکاف میں بیٹھا تھا کہ ایک صاحب مسجد میں آئے اور مجھ سے کہا آپ نے ہماری جماعت کا لٹریچر پڑھا ہے۔ میں نے پوچھا کون سی جماعت؟ انہوں نے بتایا کہ جماعت احمدیہ۔ میں نے کہا قادیانی جماعت کا لٹریچر نہ میں نے پڑھا ہے اور نہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ وہ شخص بڑے متکبرانہ لہجے میں کہنے لگا۔ آپ کو پڑھنا پڑے گا اور اگر نہیں پڑھیں گے تو آپ کو ملک چھوڑنا پڑے گا۔ (ہفت روزہ حکومت مورخہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۵۱ئ)
مولانا کے اس بیان کے کچھ عرصہ بعد قادیانی امت کا لیڈر مرزابشیرالدین محمود اپنے سالانہ جلسے کے موقعہ پر ربوہ میں وزیرخارجہ چوہدری ظفر اﷲ کی موجودگی میں کہتا ہے: ’’جو لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ اقلیت کو اکثریت پر کوئی حق نہیں۔ میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کیا ان کی دلیل وہی نہیں جو ابوجہل کے حامیوں کی تھی۔ ابوجہل کے حامی بھی یہی کہتے تھے کہ محمد رسول اﷲﷺ چونکہ تعداد میں اقلیت ہیں۔ انہیں اکثریت پر اپنی رائے نافذ کرنے کا کوئی حق نہیں۔میں ان اخبار نویسوں کو اس دلیل کے نتائج سے متنبہ کرتا ہوں اور انہیں فتح مکہ یاد دلانا چاہتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہاری حکومت مجھے پکڑ سکتی ہے مارسکتی ہے۔ مگر میرے عقیدہ کو نہیں دبایا جاسکتا۔ میرا عقیدہ فتح پانے والا عقیدہ ہے اور دلیل وہی ہے جیسا کہ فتح مکہ کے بعد ابوجہل کے حامیوں نے رسول