’’مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی حرام کمائی کے مال سے اس کے سرپر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا۔ یا کوئی بے تعلق جوان اس کی خدمت کرتی تھی۔ اس وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا۔ (پاک دامن) مگر مسیح کا یہ نام نہیں رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس کے نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘ (دافع البلاء ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰)
یہ الزام جو حضرات عیسیٰ علیہ السلام پر عائد کیاگیا۔ اس کی مزید تشریح خود مرزاقادیانی کرتا ہے۔ ’’آپ کے یسوع کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کب تک ان کے حال پر روئیں۔ کیا یہ مناسب تھا وہ ایک زانیہ عورت کو موقع دیتا کہ وہ عین جوانی اور حسن کی حالت میں ننگے سر اس سے مل کر بیٹھتی اور نہایت نخرے سے اس کے پاؤں پر اپنے بال ملتی اور حرام کاری کے عطر سے اس کے سر پر مالش کرتی۔ اگر یسوع کا دل بدحالت سے پاک ہوتا تو وہ کسی عورت کو نزدیک آنے سے ضرور منع کرتا۔ مگر ایسے لوگوں کو حرام کار عورتوں کے چھونے سے مزہ آتا ہے۔‘‘
(نور القرآن حصہ دوم ص۷۳، خزائن ج۹ ص۴۴۸)
قرآن کریم کی گواہی
یہ تو تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مرزاقادیانی کی رائے۔ لیکن قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاک دامنی پر کیا شہادت دی۔
جب حضرت حنا (نانی محترمہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ مجھے ایسی اولاد دیجیو جو خود بھی شیطان کے دخل سے پاک رہے اور پھر اس کی اولاد بھی پاک ہو اور حضرت مریم (والدہ محترمہ عیسیٰ علیہ السلام) پیدا ہوئیں تو فرمایا حضرت حنا نے ’’وانی اعیذہا بک ودریتہا من الشیطان الرجیم (آل عمران)‘‘ {اور تحقیق میں نے پناہ دی اس کو (مریم کو) ساتھ تیرے اور اولاد اس کی کو، شیطان راندے ہوئے سے۔}
جب حضرت حنا کی دعا قبول فرمائی تو جہانوں کے پالنہار نے اعلان کیا۔ ’’فتقبلہا ربہا من بقبول حسن (آل عمران)‘‘ {رب تعالیٰ نے ان کی دعا کو احسن طریق سے قبول فرمالیا۔}
اس طرح نانی اماں کی دوسری دعا قبول فرماتے ہوئے حضرت مریم (علیہا السلام) کو