زانی شخص ہیں۔ مگر اعتبار نہیں آتا تھا۔ کیونکہ ان کی مؤمنانہ صورت اور نیچی شرمیلی آنکھیں ہر گز یہ اجازت نہ دیتی تھیں کہ ان پر ایسا الزام لگایا جاسکے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب نے جو ہر کام کے لئے حضور سے اجازت حاصل کیا کرتے ہیں اور بڑے مخلص احمدی ہیں۔ ایک رقعہ حضرت صاحب کو پہنچانے کے لئے دیا۔ جس میں اپنے ایک کام کے لئے اجازت مانگی تھی۔ خیر میں رقعہ لے کر گئی۔ اس وقت میاں صاحب نئے مکان (قصر خلافت) میں مقیم تھے۔ میں نے اپنے ہمراہ ایک لڑکی لی۔ جو وہاں تک میرے ساتھ گئی اور ساتھ ہی واپس آگئی۔ چند دنوں بعد مجھے پھر ایک رقعہ لے کر جانا پڑا۔ اس وقت بھی وہی لڑکی میرے ہمراہ تھی۔ جوں ہی ہم دونوں میاں صاحب کی نشست گاہ میں پہنچیں تو اس لڑکی کو کسی نے پیچھے سے آواز دی۔ میں اکیلی رہ گئی۔ میں نے رقعہ پیش کیا اور جواب کے لئے عرض کیا۔ مگر انہوں نے فرمایا کہ میں تم کو جواب دے دوں گا۔ گھبراؤ مت۔ باہر ایک دو آدمی میرا انتظار کر رہے ہیں۔ ان سے مل آؤں مجھے یہ کہہ کر اس کمرے کے باہر کی طرف چلے گئے اور چند منٹ بعد پیچھے کے تمام کمروں کو قفل لگا کر اندر داخل ہوئے اور اس کا بھی باہر والا دروازہ بند کر دیا اور چٹکیاں (چٹخنیاں) لگا دیں۔ جس کمرے میں ہی تھی وہ اندر کا چوتھا کمرہ تھا۔ میں یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرائی اور طرح طرح خیال دل میں آنے لگے۔ آخر میاں صاحب نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور مجھ سے برا فعل کروانے کو کہا۔ میں نے انکار کیا آخر زبردستی انہوں نے مجھے پلنگ پر گرا کر میری عزت برباد کر دی اور ان کے منہ سے اس قدر بدبو آرہی تھی کہ مجھ کو چکر آگیا اور گفتگو بھی ایسی کرتے تھے کہ بازاری آدمی بھی ایسی نہیں کرتے۔ ممکن ہے جسے لوگ شراب کہتے ہیں انہوں نے پی ہو۔ کیونکہ ان کے ہوش وحواس بھی درست نہ ہی تھے۔ مجھ کو دھمکایا کہ اگر کسی سے ذکر کیا تو تمہاری بدنامی ہوگی۔ مجھ پر کوئی شک بھی نہ کرے گا۔‘‘
(مباہلہ جون ۱۹۲۹ئ، ماخوذ از ربوہ کا مذہبی آمر ص۹۱تا۹۳)
قادیان میں ان دنوں اندرونی خلفشار کے باعث بہت سے مرزائی قادیان کی موجودہ برسراقتدار پارٹی سے کٹ کر لاہوری مرزائی یا دوسرے کسی گروہ میں شامل ہوگئے تھے۔ مجلس احرار اسلام کا دفتر ان دنوں قادیان میں اپنا تبلیغی کام کر رہا تھا اور فخرالدین ملتانی کے قتل کے بعد عبدالرحمن مصری کو مجلس احرار اسلام کے رضاکاروں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
اگر مرزائیت واقعی کوئی مذہب ہے اور اس کے اخلاق یہ ہیں۔ جن کا آپ نے مطالعہ کیا ہے تو پھر ؎