نام پر خرد برد کئے اور مسلم کانفرنس کے خلاف شب وروز تخریبی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن ایک مدت تک سردار صاحب کی آواز صدابصحرا ثابت ہوئی اور عائد کردہ الزامات کے بارے میں کوئی تحقیق نہ کی گئی۔
مارچ گذشتہ میں قائد ملت (غلام عباس) نے راقم کو لاہور مسلم کانفرنس کی تنظیم جدید کے لئے مامور فرمایا تو مکمل تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ مفتی ضیاء الدین اور اس کے حواری بالخصوص ڈاکٹر اسلام الدین نیاز پیر عبدالخالق شاہ، مولوی عبدالواحد اور عبدالغفار اور غلام محمد نقاش (یہ سب کے سب مرزائی ہیں) وغیرہم تنظیمی کام میں سنگ گراں ثابت ہورہے ہیں اور ان کی پشت پناہی مرزائی کر رہے ہیں۔ خلیفہ قادیان کی حمایت اور روپیہ کے بل بوتہ پر ان لوگوں نے مسلم کانفرنس کے مقابلہ میں متوازی جماعتوں کی داغ بیل ڈال رکھی ہے اور سادہ لوح مہاجرین جموں وکشمیر کو گمراہ کرنے کے علاوہ دشمن کے ایجنٹ کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔
مسلم کانفرنس نے جب ایسے لوگوں کی قلعی کھول کر ارباب تدبیر سے درخواست کی کہ ان کی باز پرس کی جائے تو اس گروہ سے چند افراد بھاگ کر سری نگر چلے گئے۔ وہاں ریڈیو پر سلطنت خداداد پاکستان کے خلاف زہر اگلا اور باقی ماندہ مفسدین نے اپنی تخریبی کاروائیاں جاری رکھیں۔ ان واقعات کا تذکرہ لاہور تبلیغ کانفرنس میں کیاگیا۔ جس کی تصدیق فخر کشمیر جناب اے آر ساغر نے کر دی۔ لیکن اس کے باوجودطو دعاً وکرہاً فرقان بٹالین کو توڑنے کے علاوہ اسلام اور ملت کے دشمنان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
جائے شکر ہے کہ اب پولیس کی تحقیقات پر مفتی ضیاء الدین اور اس کے حواریوں کے خلاف مسلم کانفرنس کی جانب سے عائد کردہ الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے ہیں اور سرغنہ مفرورین کو گرفتار کر کے اس کے حواریوں کی تلاش جاری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ دیانتدار اور غیرجانبدارانہ تفتیش سے مفتی ضیاء الدین کے جملہ شرکاء جرم گرفتار ہوکر کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔
یہ بات قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ مفتی ضیاء الدین کی پشت پناہ جماعت کے خلاف جب تک تادیبی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ یہ لوگ مسلم کانفرنس کے خلاف محاذ جاری رکھیں گے اور تخریبی سرگرمیوں سے باز نہیں آئیں گے۔‘‘ (اخبار زمیندار مورخہ ۲؍نومبر ۱۹۵۰ئ)
اگر اس بات کے طویل ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو اس سے متعلق اور بہت سی معلومات بہم پہنچائی جاتی۔ لیکن ان واقعات ومشاہدات کے بعد صرف ایک اور حوالہ نقل کر کے اس بات کو ختم کرتا ہوں اور اس کا فیصلہ اپنی گورنمنٹ پر چھوڑتا ہوں۔