۔
حج
۴۔
اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت کے جس کے ہم زیرسایہ ہیں یعنی کہ گورنمنٹ انگلشیہ کے لئے کوئی مفسدانہ خیال دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔
۵۔
زکوٰۃ
۵۔
بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنا اور ہر شخص کی دنیا وآخرت کی بہبودی کی کوشش کرتے رہنا۔
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷،۱۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹،۲۰)
ان خیالات کو وہ یوں بھی کہتا ہے۔ ’’لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں۔ یعنی سمجھ لیں کہ اب زمینی جہاد بند کر دئیے گئے ہیں اور آسمان کے کھلنے کا وقت آگیا ہے۔ جیسے کہ پہلے لکھا گیا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھائے گا اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے نبی کا نافرمان ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
یہ تو نثر تھی اب نظم میں سرکاری نبی کا الہام ملاحظہ ہو: اب چھوڑ دو اے دوستو جہاد کا خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے
دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۷۷)
مختصر یہ کہ سرکار برطانیہ کا یہ خود کاشتہ پودا اپنی زندگی انہی لیل ونہار میں گذار کر انگریزی اقتدار کی خوشنودی کے لئے اسلام کے دامن کو داغدار کر کے مئی۱۹۰۸ء میں اپنے حساب وکتاب کے لئے خدا کے حضور حاضری دینے کے لئے ہیضہ کی بیماری سے چلتا بنا ؎
خس کم جہاں پاک