بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
آج بھی کچھ لوگ اس ملک میں ایسے ملتے ہیں جو مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریک کو اس کے اصل رنگ میں نہیں دیکھ سکے۔
کالج کی تعلیم سے فارغ نوجوان سے تو کوئی ایسا گلہ نہیں۔ اس لئے کہ والدین نے اسے مذہب کی تعلیم سے کورا رکھا۔ آگے چل کر جن ملاؤں سے ان کے رسم وراہ بڑھے۔ بدقسمتی سے وہ لوگ صحیح معنوں میں مذہب کے پیشوا نہیں تھے۔ ان کی باگ ڈور، اجنبی حکومت کے ہاتھوں میں تھی۔ رائج الوقت سلطنت نے ایسے لوگوں کو اپنی اپنی درسگاہوں میں بظاہر بطور معلم کے چھوڑ رکھا تھا۔ دراصل وہ برطانوی سلطنت کے جاسوس تھے۔ ظآہر ہے کہ ایسے لوگ مسلمان نوجوان کو مذہب کی کسی ایسی راہ سے آشنا نہیں کرا سکتے تھے۔ جس پر چلنے سے اسلام کا صحیح پرتو نوجوانوں کے مستقبل کو روشن اور واضح کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں جس قدر مذہبی تحریکیں متحدہ ہندوستان میں چلیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان ان میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ آج بھی جہاں کہیں دو مختلف الخیال علماء باہم مذہبی گفتگو کرتے ہوں۔ ان اجتماعوں میں دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ اوّل وہ جنہیں مذہب سے نہ صرف لگاؤ ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک مذہب انسانی زندگی کا کماحقہ رہنما ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو مذہب سے محبت رکھتے ہیں۔ خواہ انہوں نے اسلام کا ابتدائی قاعدہ پڑھا ہو یا نہ۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ نوجوانوں کو مذہب سے نفرت ہے۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو اس بحث کے قابل نہیں پاتے۔ ان کی تعلیم کی ابتداء مذہب سے نہیں ہوئی۔ بلکہ ایک ایسی تعلیم سے ہوئی ہے۔ جس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
چونکہ مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریک کو مذہب کا لباس پہنا دیا گیا تھا۔ اس لئے مذہب سے بیگانہ نوجوان ان علماء کی باتیں سننے سے دور رہا۔ جو شروع میں تردید مرزائیت کے لئے میدان میں آئے۔
اگر عام لوگوں میں یا خاص گھرانوں میں اسلام کی تعلیم کارواج عام ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریک کو اس قدر فروغ ہوتا۔ جس قدر انگریز کی عملداری میں اس کو ہوا۔