ساز اکیڈمی کا ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ رسول اور نبی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اصلی، دوسری نقلی جو بعینہ اصل کے مطابق یا اس سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اﷲتعالیٰ کے بعض انبیاء وہ ہوتے ہیں جن کے پاس براہ راست جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور بعض وہ جن کے پاس جبرئیل براہ راست نہیں آتے۔ بلکہ وہ باقاعدہ نبوت کا کورس پڑھتے ہیں۔ پھر ان کے نگران اعلیٰ کے پاس جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آتے ہیں اور یہ آگے اس دوسری قسم کے انبیاء تک یہ پیغام وحی پہنچاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی قسم کی وحی میں جبرئیل علیہ السلام کا نزول بلاواسطہ ہوتا ہے اور یہاں سند تو متصل ہے۔ مگر بیچ میں نبی ساز یونیورسٹی کے چانسلر کا واسطہ ہوتا ہے۔ ایک واقعہ سے اس مسئلہ کی مزید وضاحت کر دیتے ہیں۔ کتاب جواہر معصومیہ میں روضہ قیومیہ کے حوالے سے اکبر بادشاہ اور مجدد الف ثانیؒ کے فرزند خواجہ محمد معصومؒ کا واقعہ لکھا ہے کہ خواجہ صاحب ذی لیاقت عالم اور ارکان سلطنت اکبری کے مرد ممتاز اور معتمد علیہ تھے۔ بادشاہ کو آپ پر بڑا بھروسہ اور کامل اعتماد تھا۔ گفتنی وناگفتنی امور میں آپ کو رازدار جانتا تھا۔ اسی زمانہ میں بادشاہ کے مقرب شیخ ابوالفضل نے بلحاظ اپنی مصلحتوں کے بادشاہ کو باور کرایا کہ آپ ہنود کے اوتار ہیں۔ ایک اوتار کا دنیا میں آنا جو باقی تھا۔ اس کی سب علامتیں بموجب وید کے آپ میں موجود ہیں۔ بعض آیتیں بھی فرشتے نے آپ کے لئے مجھے لاکر دی ہیں۔ چنانچہ ان میں ایک آیت یہ ہے: ’’یایہا البشر لا تذبح البقر وان تذبح البقر فما راک السقر‘‘ پھر تو بادشاہ کے خیال میں یہ بات اچھی طرح سما گئی کہ حقیقت میں وہ اوتار یعنی نبی ہے اور ابوالفضل فیضی اور فیاضی اس کے اصحاب ہیں۔ ایک ایسی کتاب بھی ترتیب پانی چاہئے جس میں وہ آیات جو وقتاً فوقتاً نازل ہوں، جمع ہوتی رہیں۔ بالآخر بلحاظ رازداری ولیاقت وکارگزاری بادشاہ نے اپنا امین سمجھ کر اس خدمت کو خواجہ صاحب کے سپرد کر دیا۔
خواجہ محمد معصومؒ ان آیتوں کو جو ابوالفضل کے واسطے سے دستیاب ہوئی تھیں۔ لکھ کر بقیہ آیات کے لئے قلم ہاتھ میں لئے آسمان کی طرف دیکھنے لگے تو بادشاہ نے آپ سے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں، کتاب لکھئے۔ آپ نے کہا کہ جبرائیل کا منتظر ہوں۔ وہ لائے تو لکھوں، بادشاہ نے سمجھایا کہ کچھ تو لکھو۔ مگر آپ نے کہا کہ آسمانی کتاب کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ ویسے ہی لکھ لی جائے۔ بہرحال اکبر بادشاہ یہ سن کر شرمندہ ہوا اور اپنی شرمندگی دور کرنے کے لئے پنجاب کا صوبہ دار مقرر کر دیا۔ آخر میں جب بادشاہ کا ارتداد مشہور ہوا تو ان کو مخالفت کی وجہ سے شہید کرادیا۔