قرآن بھی ہوا۔ لیکن نزول ثانی میں اس کا ذکر ہی نہیں۔ اس لئے چن بسویشور کے چیلے نے یہ کسر بھی پوری کر دی ملاحظہ فرمائیں: ’’انا علینا جمعہ وقرآنہ‘‘ یعنی قرآن کا جمع ہونا اور اس کا پڑھنا ایک خاص وقت پر ہوتا ہے اور وہ وقت معین ہے۔ یہ عمل حضور سرور عالم(ﷺ) کے ظہور پر ہوا یا پھر حضرت مولانا صدیق دیندار قدس سرہ العزیز کے وجود نے اس عمل کو پورا کیا۔‘‘
(شمس الضحیٰ ص۶)
حضورﷺ کے بعد سے صدیق کے ظہور نامسعود تک قرآن پاک کا پہلا نزول اور جمع وترتیب باقی رہی یا ختم ہوگئی؟ اگر اس عرصے میں وہی منزل قرآن مرتب موجود رہا تو نہ چن بسویشور پر نزول کی ضرورت رہی اور نہ چن بسویشور کے جمع وترتیب کی حاجت، اور اگر حضورﷺ کے بعد قرآن ختم ہوگیا۔ العیاذ باﷲ! تو فرمائیے کہ اس تیرہ سو برس میں مسلمانان عالم جس قرآن کو قرآن مانتے آئے وہ کیا تھا؟ اس عرصے میں جب قرآن ہی نہیں تھا تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے پاس جو تھا وہ قرآن کے علاوہ تھا۔ اس کی تشریح دیندار انجمن والوں سے مطلوب ہے۔
دشٹ
اب حضرت والا سچ بولنے لگے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’ہم میں تقریباً تمام ہندوستان کے اوتار ہیں۔ ہم سے ہندوستان کو امن ہوگا۔ دشٹوں کے نمبر میں مت آؤ۔‘‘ (دیباچہ شمس الضحیٰ)
خیر کوئی بات نہیں دشٹوں کا نمبر بعد میں سہی۔ مگر آنجناب نے بات بڑے پتے کی بتادی۔ ایک اوتار کے لغویات کا تحمل بھی مشکل ہوتا ہے۔ جب آپ کے پیر جی میں یا خود آپ میں ہندوستان کے تمام اوتار جمع ہیں تو ایسی صورت میں نہ جانے ان خرافات ولغویات کا کتنا بڑا انبار لگا ہوگا اور بلاشبہ یہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے چند اقتباسات اس رسالہ میں بھی ملاحظہ فرمالئے ہوںگے۔
قارئین حضرات! یہ نہ بھولئے کہ اوتار کی اصطلاح مسلمانوں میں نہیں ہے۔ یہ ہندو سادھوؤں کی اصطلاح ہے۔ ہندوؤں کا خدا کہئے یا موعود مذہبی رہنمائ، بہرحال اسلام کا دامن ان اوتاروں سے پاک ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصنف بیچارے کا میلان ہندوؤں کی طرف زیادہ ہے۔ جس کی وجہ شاید یہی ہوسکتی ہے کہ ان کی نبوت اور دیگر دعاوی کے دلائل ہی انہی کی کتب سے مأخوذ ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ان کی دلجوئی کی خاطر ان کی طرف کچھ بھی جھکاؤ نہ رہے تو یہ نمک حرامی ہوگی۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں شوق سے ہندوؤں کا نمک ادا کریں۔ مگر اسلام کا لیبل لگا کر نہیں۔