اعادہ سے متعلق اشعار بھی سن لیجئے۔ فرماتے ہیں ؎
یہ خود عود کر آئے موعود ہوکر
شہادت میں خود اپنی مشہود ہوکر
(شمس الضحیٰ ص۱۲)
نیز ارشاد ہے ؎
ثمر بن کے قرآن کے مشہود آئے
قیامت کی بعثت میں محمود آئے
اعادہ میں اپنے وہ موعود آئے
غرض دور آخر کے مقصود آئے
(شمس الضحیٰ ص۱۵)
مسلمان کے کسی بچے سے پوچھئے وہ یہی کہے گا کہ ہم چن بسویشور کی بعثت کے لئے یہ دعا نہیں کرتے۔ پھر یہ کہنے کی تمہیں کیسے جرأت ہوگئی کہ حضورﷺ نے تمہاری بعثت کے لئے بعد اذان دعا سکھائی۔ جس کی تعمیل میں ہر مسلمان ’’وابعثہ مقاماً محمودا‘‘ کے الفاظ دہراتا ہے۔ چن بسویشور کو شیطان نے دھوکہ دیا ہے کہ مسلمان تیری بعثت کے لئے دعا کررہے ہیں۔ اف غضب کر دیا بدبخت نے یہ کہہ کر کہ ادھر نماز کے قعدہ میں شہادت کی انگلی اسی بعثت ثانی کی شہادت میں اٹھائی جاتی ہئے۔ العیاذ باﷲ حضورﷺ کے ایک ہندو کی شکل میں آنے کی شہادت کوئی مسلمان دے سکتا ہے؟
خدا غارت کرے کہتا ہے کہ حضورؐ کا تیرہ سو سال بعد کسی کی شکل میں ظاہر ہونے کا مسلمانوں میں انتظار ہے۔ مسلمان تو بیچارے خواب میں بھی ایسا گمان نہیں کر سکتے۔ بلکہ دیندار انجمن والے جو بالاتفاق کافر اور منافق ہیں۔ وہ بھی اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اپنے ضمیر سے فتویٰ لیں کہ کیا واقعی تمہیں کسی کی شکل میں حضورؐ کی بعثت ثانی کا انتظار تھا۔ یقینا دل سے یہی فتویٰ ملے گا کہ نہیں یہ تو اس جماعت میں شامل ہونے کے بعد سے تمہارے ذہنوں میں بٹھایا ہوا جھوٹ کا پلندہ ہے۔
بعثت ثانی پر دلیل قاطع جو مصنف نے پیش کی ہے۔ وہ یہ کہ قعدہ میں ’’ایہا النبی‘‘