جہاں اپنے مریدین کو خوش کرنے کے لئے انہیں نبی کا خطاب دیا۔ وہاں عامۂ مسلمین کی دلجوئی کے لئے عام قانون بنادیا کہ ؎
نہیں کوئی مسلم ہے نبیوں سے کچھ کم
چلئے لگے ہاتھوں، چن بسویشور کی اپنی عبارت ملاحظہ فرمالیں۔ ’’جو مسلمان پیدا ہوتا ہے یا مسلمان ہوتا ہے۔ وہ پہلے ہی قدم میں کسی نہ کسی نبی کا مثیل بننے کی بالقوۃ طاقت رکھتا ہے اور دوسرا تصرف حضرت منبع انوار کا مسلمانوں میں یہ چل رہا ہے کہ کسی مسلمان کو خیال تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کسی بچہ کا نام کسی نبی کی غلامی میں رکھے۔ جیسے عام طور پر غلام محمد، غلام احمد، غلام علی، غلام دستگیر نام رکھتے ہیں۔ اس طرح غلام ابراہیم، غلام موسیٰ، غلام عیسیٰ رکھنے کا کسی مسلمان کو خیال نہیں ہوتا۔ کیونکہ ؎
نہیں کوئی مسلم ہے نبیوں سے کچھ کم
(مہر نبوت ص۶۰،۶۱)
اس خامہ فرسائی کو دیکھ کر ان کی عقل پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ یہ اس قابل بھی نہیں کہ اس کا رد کرنے کے لئے کاغذ ضائع کیا جائے۔ لیکن اس کی آڑ لے کر دیندار انجمن کے موجودہ نگران اعلیٰ سعید بن وحید نے کشمیر میں سیرت النبی کے جلسہ میں کہا تھا کہ: ’’جہاں سے نبوت ختم ہوتی ہے۔ وہاں سے تو مؤمن کے کمال کا آغاز ہوتا ہے اور کوئی مؤمن اگر نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اپنے مرتبہ سے نیچی بات کا دعویٰ کرتا ہے۔‘‘
دریدہ دہنی کی انتہاء ہوگئی کہ مؤمن نبی سے بڑے درجے کا ہوتا ہے۔ نبی اگر مؤمن سے کم درجہ ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ انبیاء مؤمن نہیں اور جب انبیاء کے لئے مؤمن ہونا ضروری نہیں تو وہ کافر ہی ہوں گے۔ جیسا کہ چن بسویشور صاحب عجیب منطقی چال ہے۔ نبوت ایسی سستی کردی کہ ایمان کی شرط بھی اڑا دی۔ اگر نبوت بے ایمانی اور بے غیرتی کا نام ہے تو وہ تمہیں ہی مبارک ہو ؎
رقیب سرٹیفکیٹ دیں تو عشق ہو تسلیم
یہی ہے عشق تو اب ترک عاشقی اولیٰ
(اکبر الہ آبادی)
حقیقت کچھ اور ہے۔ انہیں خود بھی پتہ نہیں کہ نبی کیا ہوتے ہیں۔ دراصل غلام احمد