جنت نہیں بیکار خانہ
تصور آخرت، جہنم کا خوف، جنت کی طلب یہ ایسی چیزیں ہیں جو مسلمان کو عمل کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ اس لئے اس دشمن خدا کے دل میں یہ شرارت پیدا ہوئی کہ پہلے اس تصور کا خون کر دیا جائے تاکہ آگے مختلف دعاوی کر کے اپنی ہوس پوری کی جاسکے اور تصور آخرت دل سے مٹ جانے کے بعد مسلمان سخرۂ نفس بن کر اس کی ہوسناکیوں کو برداشت کر لیں۔ ارشاد ہے:
’’جب دنیا میں گناہوں کا زور ہوتا ہے تو جنتی ارواح کو غیرت ہوتی ہے۔ اﷲ کے اذن سے بصورت اولیاء اﷲ آکر کام کرتی ہیں۔ ورنہ یہ خیال کیا جائے کہ جنتی لوگ ہمیشہ جنت میں پڑے رہتے ہیں۔ اس سے توجنت نہ ہوئی۔ بیکارخانہ ہوا۔ بیکاری انسان کی بیکاری کا باعث ہوا کرتی ہے۔ بے کار انسان جنتی نہیں کہلا سکتا۔‘‘ (معراج المؤمنین ص۵۶)
برادران اسلام اس طرز فکر کو سمجھئے مرنے کے بعد انسان کامل کہاں جاتے ہیں؟ دوبارہ لوٹ کر گناہوں کی دنیا میں آجاتے ہیں؟ لوٹنے سے قبل کہاں تھے؟ بیکار خانہ جنت میں چن بسویشور کے عقیدہ کے مطابق اب ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد حضور کی بعثت ثانی ہوئی۔ لیکن اس ساڑھے تیرہ سو سال میں حضور کہاں تھے؟ کیا نعوذ بااﷲ بیکار خانہ میں رہے؟ اگر نہیں تو فرمائیے اس درمیانی وقفہ میں کہاں رہے؟
مسلمانو! ہوش میں آؤکچھ سمجھے، یہ کیا کہا جارہا ہے؟ چن بسویشور بکتا ہے۔ تصور آخرت غلط ہے۔ جنت بیکارخانہ ہے۔ حضورﷺ بے کارخانہ میں رہ نہیں سکتے۔ اس لئے آپ اسی دنیا میں بہ لباس دیگر تشریف لائے ہیں۔ جب تمہارا نبی اس بیکار خانہ میں رہنے کو پسند نہیں کرتا تو تم جنت کی فکر میں لگ کر کیا حماقت کر رہے ہو؟
یہ چوہے اسلام کی جڑیں کاٹنے میں کس قدر منہمک ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں سے چندہ کر کر کے اسلام کے خلاف یہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر دل ودماغ بے قابو ہوئے جاتے ہیں۔ اے کاش کہ اس وقت میرے ہاتھ میں بجائے قلم کے تلوار ہوتی اور حضور اکرمﷺ فداہ ابی وامی کی توہین کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے ان جھوٹے نبیوں، دیندار انجمن والوں اور ان تمام لوگوں کی گردنیں قلم کرنے میں مصروف ہوتا جو ان دجالوں کو چندہ دیتے ہیں۔ مگر ع