عوج میں اولیاء کی بعثت کے زمانہ میں بتدریج ایک ہزارسال کے اندر آسمان پر چڑھ جائے تو دوبارہ وہ ذات بابرکت تشریف لائیں گے۔ ان پر علم قرآن نازل ہوگا۔‘‘ (مہرنبوت ص۴۴)
عجیب وہ قرآن جس کا نزول سرکار دو عالمﷺ پر مکہ ومدینہ میں ہوتا تھا۔ آج ہندوؤں کے اوتار چن بسویشور پر اس کا نزول حیدرآباد دکن میں ہوگیا ؎
وائے رے قرآن مظلومی تری
بہائیوں کی کتاب اقدس دنیا میں عمل کے لئے آئی تھی۔ فضا سازگار نہ ہونے کی وجہ سے بھاگ کر چھپ گئی۔ فضا ساز گار ہوگی تو پھر نزول کرے گی۔ اس دشمن خدا کے نزدیک قرآن بھی ایک ہزار سال تک بھاگ کر آسمان پر چھپا رہا۔ اب چن بسویشور کی موجودگی میں حیدرآباد کی فضا سازگار ہوئی تو وہ اتر آیا ؎
وائے ناکامی متاع عقل ہی غارت گئی
ارے دشمن خدا! ہوش کے ناخن لے کہیں اﷲتعالیٰ کی کتاب بھاگا کرتی ہے۔ کتاب اﷲ تو اس لئے آتی ہے کہ بے عملی کے زمانے میں لوگ اس سے عمل سیکھیں۔
دریدہ دہنی کی انتہاء کر دی
پہلے مسیلمہ کذاب کی بوجہلیت سن کر داد دیں۔ ’’یہ فقیر فنافی الرسول اپنے اندر سے حضور منبع انوار کی قدسی طاقت کو ظاہر کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے میرے سامنے نہیں بلکہ حضور منبع انوار کے سامنے کل انبیاء زانوئے ادب طے کئے بیٹھے ہیں۔‘‘ (مہر نبوت ص۶۲)
دیکھ لیا من تو شدم تو من شدی کا عجیب وغریب مظاہرہ کہ کل انبیاء میرے سامنے زانوئے ادب طے کر کے بیٹھے ہیں۔ مگر چونکہ میں بروز محمد ہوں۔ اس لئے درحقیقت حضور کے سامنے انبیاء ادب سے بیٹھے ہیں۔ یہ کیسا عجیب منطقی جملہ ہے۔ نبوت بھی اپنی ایجاد اور منطق بھی۔ یہ مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج نہیں تو اور کیا ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ایسی توہین کہ وہ ایک ہندو کذاب کے سامنے زانوئے ادب طے کئے بیٹھے رہیں۔ اس انجمن کی کوئی تصنیف اس قسم کی لغویات سے خالی نہیں۔ ضرور ان حرکات شنیعہ کے پس پردہ کوئی شقی ہاتھ کام کر رہا ہے مگر ؎
سنبھل کے رکھنا قدم دشت خار میں مجنوں
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے