دردا کہ راز پنہان خواہد شد آشکارا
آپ کا کوئی قصور نہیں۔ اصل میں اسلام کو چھوڑے ہوئے کافی زمانہ گذر گیا ہے۔ اب یاد نہیں رہا کہ مہدی کیا ہوتے ہیں۔ بس سمجھ کی غلطی ہے۔ بیچارہ یہی سمجھا کہ مہدی آخرالزمان بھی کوئی چاکیواڑہ کا غنڈہ ہوگا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ؎
گھر کو چھوڑے ہوئے مدت ہوئی صیاد مجھے
کس چمن میں تھا نشیمن یہ نہیں یاد مجھے
تعجب ان دیوانوں پر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ہوس آکر سب سے پہلا دار ہوش پر کرتی ہے۔ جب عقل وخرد ہی رخصت ہوگئی تو پھر کسی کا کیا رونا۔ مگر تعجب ان مسلمان بھائیوں پر ضرور ہوتا ہے۔ جو ایسی خرافات بکنے والوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنا رہبر تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مگر ’’لکل ماقطۃ لا قطۃ‘‘ کے قانون پر اس کے بغیر عمل ہی ناممکن تھا ؎
گردش چرخ بدل دیتی ہے دنیا کا طریق
ہو ہی جاتے ہیں سب اس شعبدہ پرواز کے ساتھ
گل تازہ شگفت
’’اگر میں احمدیوں کا مامور موعود نہیں ہوں تو دوسرا کوئی بتائے کہ جو عین وقت یعنی ۱۹۲۴ء میں آیا۔ اگر میاں (محمود) صاحب کے مامور ہونے کا انتظار ہے تو وہ بالبداہۃ غلط ہے۔ پہلے تو اسی بناء پر غلط ہے کہ مأمور کبھی ایک زبردست جماعت کا خلیفہ نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ مامور کے ساتھ ہونے والوں کو ایمان بالغیب اور امتحانات میں سے گذرنا پڑتا ہے اور سوائے اس کے حضرت (مرزاقادیانی) نے یوسف موعود کے لئے نطفہ اور علقہ لکھا ہے اور لکھا ہے کہ وہ معمولی انسان ہوگا۔ تمہاری نظریں دھوکہ کھا جائیں گی اور یہی سنت اﷲ ہے… ایسی صورت میں نہ خواجہ کمال الدین صاحب کھڑے ہوسکتے ہیں اور نہ مولانا محمد علی صاحب اور نہ میاں (محمود) صاحب یہ کل مشہور انسان ہیں۔ اگر یہ لوگ اس کام کے لئے مامور ہو جائیں تو خدا کی سنت میں فرق آتا ہے۔ اسی وجہ سے اﷲ جل شانہ نے اپنی سنت کے مطابق جماعت احمدیہ کے ابتلاء کے زمانہ میں صدیق کا انتخاب کیا۔ دیرآمدہ زراہ دور آمدہ کا وعدہ پورا کیا۔ اس کا تفصیل وار ذکر آئندہ آئے گا۔