دوران کا تعارف مجھ ناچیز سے نہ کرایا جاسکتا ہے۔ نہ ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ جس قدر آپ کے ذہن میں حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حسن مبارک ہوگا۔ اتنا ہی چن بسویشور کی بدصورتی کا اندازہ کر لیں اور یہ حقیقت ہے مبالغہ آمیزی نہیں۔ ان کو جہنم رسید ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔ دیکھنے والے ابھی تک زندہ ہیں۔ درحقیقت ؎
برعکس نہند نام زنگی کافور
مہدی آخرالزمان
جو شخص نبی بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کے لئے مہدی آخر الزمان بننا کیا مشکل تھا۔ جب کہ اس سلسلہ میں ایک خواب بھی بطور تائید نظر آیا تھا۔ فرماتے ہیں: ’’حضور(ﷺ) نے میری طرف انگلی سے اشارہ کر کے عوام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تک کوئی شخص اس میں فنا نہ ہوگا وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (خادم خاتم النبیین ص۸)
میرے آقا سرور کونینﷺ کی طرف جھوٹا خواب نسبت کر کے آسمان سے تو پروانہ مل ہی چکا تھا۔ اب لوگوں کو دھوکا دینا تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ایسی صورت میں دعویٰ مہدیت اور بیعت رضوان لینے میں کیا چیز مانع تھی؟ جس سادہ لوح مسلمان نے حضورﷺ کے نام مبارک کے ساتھ بشارت سنی۔ اپنا تن من دھن قربان کر ڈالا اور مہدی مان کر بیعت کرلی۔ سنئے چن بسویشور کی اپنی زبانی۔ ’’ہیلی میں ایک عورت میرا وعظ سن رہی تھی۔ روحانیت کا اتنا اثر ہوا کہ جدھر دیکھئے چن بسویشور نظر آرہا ہے اور ہر ایک آواز چن بسویشور ہے۔ اگر مرغ بانگ دے تو چن بسویشور کہتا ہے اور بچہ بھی روتا ہے تو چن بسویشور ہی کہتا ہے۔ بگھار چڑھا ہوا ہے تو چن بسویشور آواز آرہی ہے۔ کئی دن ایسا رہا۔ اس معاملہ میں وہ عورت گھبرا گئی۔ اپنے خاوند کو لے کر میرے پاس آئی۔ میں نے بیعت لے کر دعاوی اب تک وہ اچھی ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو بعد وعظوں کے پکار اٹھے کہ آپ مہدی ہیں۔ بعض نے مہدی مان کر بیعت کر لی۔‘‘ (خادم خاتم النبیین ص۴۸)
ایسے ہی اسی کتاب میں اپنی روحانیت کا ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وہ (کوئی لڑکی) بن سنور کر رات میں مجھ سے آکر لپٹ گئی۔‘‘
یہ ہیں مہدی آخرالزمان کی روحانیت کے کرشمے ؎