ہے تو انہوں نے دشمنی کا دوسرا روپ اختیار کر لیا۔ چاہیں تو اسے وہ طریقہ کہہ لیں جسے رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی نے سرکار دوعالمﷺ کی عداوت میں شروع کیا تھا۔ یا ہوس نبوت کا وہ تخم زہر قاتل کہیں جس کی آبیاری مسیلمہ کذاب اور اس کے ہمنواؤں سجاح اور طلیحہ اسدی نے کی تھی۔ بہرحال ہیں یہ سب ایک ہی شجرۂ خبیثہ کے برگ وبار۔ ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کا قانون اٹل ہے۔ نام اور کام کے رنگ ڈھنگ کا فرق ہے اور بس ؎
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یکساں
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
اور شاعر نے ایسی ہی حالت کے مطابق کیا خوب کہا ہے کہ ؎
سیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
مگر یاد رہے کہ یہ تمام حربے اندرونی ہوں یا بیرونی۔ جس طرح اب تک ان کے لئے غیرمفید رہے ہیں۔ اسی طرح آئندہ بھی ان کا ہر حربہ بے نقاب ہوکر انہیں کے لئے ذلت ورسوائی کا موجب ہوگا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی اہمیت کو کم کرنے بلکہ انہیں بے دینی کی راہ پر لگانے کے لئے جہاں دیگر ذرائع کام میں لائے گئے۔ انہی میں ایک فتنہ دعوائے نبوت کا بھی ہے۔ نبی بننے کو ایسا آسان کر دیا گیا کہ جب چاہیں نبی بن جائیں۔ بلکہ حد یہ کر دی کہ ایک احمق کو نبی بننے کا شوق ہوا تو اس کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ انبیاء علیہم السلام کو اﷲتعالیٰ مبعوث فرماتے ہیں۔ جب دعویٰ نبوت کیا تو لوگوں نے پوچھا کس نے تمہیں نبی بنا کر بھیجا ہے؟ تو فرمانے لگے۔ مجھے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون!
ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اسے کیا کہیئے
یوں تو سرکار دوعالمﷺ کے انتقال کے بعد کتنے لوگوں نے نبی، رسول، مسیح موعود، یوسف موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ بلکہ بروز محمد(ﷺ) اور عین محمد(ﷺ) ہونے تک کے دعوے بھی ہوئے۔ لیکن مردم خیزی کا جو شرف ہندوپاک اور خصوصاً سرزمین پنجاب کو نصیب ہوا ہے وہ دنیا کے کسی اور خطے کو خواب میں بھی نصیب نہ ہوگا۔
اس خطۂ مقدسہ میں غلام احمد قادیانی ’’لعنۃ اﷲ علیہ وعلیٰ من حذا حذوہ‘‘