تحریک کو ناکام بنادیں۔ امتحان وآزمائش کی ان سخت گھڑیوں میں بعض مات کھا جاتے ہیں اور بعض اس آزمائش سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔
اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ فطرت انسانی کی صحیح ترجمانی اگر کہیں پائی جاتی ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ نظریۂ اسلام اور دیگر مختلف نظریات میں جہاں دوسرے فرق ہیں۔ وہاں یہ فرق نہایت واضح ہے کہ وہ تمام قوانین ونظریات جو غیراسلامی ہیں۔ وہ ایک خاص طبقہ اور مکتب فکر کے جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ وہ خالص جذبات پر مبنی ہونے کی بناء پر اوّل تو مصالح بشریہ سے بالکل خالی ہوتے ہیں اور اگر ان میں کچھ مصلحت ہو بھی تو وہ مخصوص طبقہ اور مخصوص زمانے تک محدود ہوتے ہیں۔ بخلاف اسلام کے کہ وہ چونکہ خالق کائنات کا اپنی مخلوقات کے لئے بنایا ہوا ضابطہ ہے جو علیم وخبیر ہونے کی وجہ سے بندوں کے حالات مابعد وما قبل سے بخوبی واقف ہے۔ اس لئے اس ضابطۂ حیات میں جہاں جذبات انسانی کی رعایت رکھی گئی ہے۔ وہاں اس کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کی طبیعت سلیمہ اور فطرت عالیہ کی حقیقی ترجمانی کرتا ہو۔ ارشاد ربانی ہے: ’’فاقم وجہک للدین حنیفا فطرت اﷲ التی فطرالناس علیہا لا تبدیل لخلق اﷲ ذالک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون (روم)‘‘
ویسے تو ہر فرد بشر جب اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنالیتا ہے تو وہ اسی کو اپنی معراج اور کائنات کی نجات کا واحد ذریعہ قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہے: ’’الذین فرقوا دینہم وکانوا شیعاً کل حزب بما لدیہم فرحون (روم)‘‘
لیکن جب واقعات اور حقائق پر نظر ڈالی جاتی ہے تو لوٹ کر بات پھر وہیں آکر رک جاتی ہے۔ جہاں سے ہم چلے تھے کہ: ’’الایعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر (ملک)‘‘
لیکن ظاہر ہے کہ ایسا عالمگیر مذہب اور جذبات وفطرت انسانیہ پر حاوی ضابطۂ حیات دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس لئے زیرگردوں جب اسلام کا سورج چمکا تو شپرہ چشموں کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں اور دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ اس کو ختم کرنے کی کس قدر سعی لاحاصل کی گئیں۔ مگر وہ قدم قدم پر اسلام کی ترقی کا موجب بنتی رہیں۔
آخرکار جب ان دشمنان اسلام نے دیکھ لیا کہ اس طرح سے ان کا داؤ نہیں چل رہا