نے جو کشت نبوت بوئی ہے اور جس کے پودے پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہ شرف کسی اور دشمن اسلام کو کم ہی نصیب ہوگا۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہوسکتی ہے کہ اس کی خمیر میں وہ تمام خباثتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ جو معلم الملائکہ ابلیس ’’علیہ وعلیٰ اتباعہ اللعنۃ الیٰ یوم الدین‘‘ میں اس کی سرکشی کے عوض ودیعت رکھی گئیں۔ اس پر مسترزادیہ کہ شیطان نے خدا بننے کا دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن آپ کے شاگرد بھی خدا بن گئے ؎
ایں چہ شوریست کہ در دور قمرمی بینم
یا الٰہی! میں یہ کیا سن رہا ہوں۔ یا اﷲ! یہ تیرا ناسپاس گذار غلام ہے۔ جو اب خدائی کا دعویدار ہے۔ کبھی تو چہرے سے مکھی بھی نہ ہٹا سکے اور اب جو آپ نے صحت وقوت عطاء فرمائی ہے تو تیرے مقابل آکھڑا ہے۔ ’’اللہم خذہم اخذ عزیز مقتدر‘‘ عجیب اتفاق ہے کہ استاذ وپیر (غلام احمد قادیانی) تودرجۂ نبوت سے نہ بڑھ سکے اور مرید (صدیق دیندار چن بسویشور) نبوت سے ترقی کر کے مظہر خدا بن بیٹھے۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ ورنہ… اکبر الہ آبادی مرحوم انہیں سے تو نالان ہوکر یہ کہہ گئے ؎
صورت فانی سے آخر کیوں نہ پہچانے گئے
مجھ کو حیرت ہے کہ یہ بت کیوں خدا مانے گئے
ان بیچاروں نے بچپن گذارا۔ جوانی کے دن عیش وعشرت میں کاٹے۔ پیری کے لمحے بسر کئے۔ یہاں تک کہ موت نے آدبوچا۔ مگر یہ نہ سمجھے کہ ہم کیوں آئے تھے اور کیا کر چلے، اکبر یہاں بھی آپہنچے ؎
اجل آپہنچی قبل اس کے کہ سمجھیں راز ہستی کا
بگاڑا موت نے اور یہ نہیں سمجھے بنے کیوں تھے؟
مگر دوسرے مصرع میں اتنی تبدیلی ناگزیر ہے۔ اکبر مرحوم کی روح بھی انشاء اﷲ اس سے خوش ہوگی ؎
بگاڑا موت نے اور یہ نہیں سمجھے نبی کیا تھے؟ واﷲ! یہ اور ان کے پجاری خوب جانتے ہیں کہ خدا جس نے ساری کائنات کو بشمول ان کے پیدا فرمایا ہے۔ وہ کوئی اور ذات ہے صدیق دیندار چن بسویشور نہ خود خدا ہے نہ اس کا مظہر