نوٹ: قیس جنگل میں اکیلا ہے۔ مجھے جانے دو، خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔
ناظرین! غور فرمائیں کہ جس شخص کا دماغی توازن درست نہیں اور مرض مراق کا شکار ہوچکا ہے۔ کیا اس کا کوئی قول بھی قابل التفات ہے؟ ہرگز نہیں۔
ایک دفعہ اپنے خلیفہ نوردین کو خط لکھتے ہیں۔ جس کا اقتباس بجنسہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں: ۱… ’’جس قدر ضعف دماغ کے عارضہ میں یہ عاجز مبتلا ہے۔ مجھے یقین نہیں کہ آپ کو ایسا ہی عارضہ ہو۔ جب میں نے نئی شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔ آخر میں نے صبر کیا اور اﷲتعالیٰ پر امید اور دعا کرتا رہا۔ سو اﷲ جل شانہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ضعف قلب تو اب بھی مجھے اس قدر ہے کہ میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ خط۱۴، مورخہ ۲۲؍فروری ۱۸۸۷ئ)
۲… ’’دوا جس میں مروارید داخل ہیں۔ جو کسی قدر آپ لے گئے تھے۔ اس کے استعمال سے بفضل تعالیٰ مجھ کو بہت فائدہ ہوا۔ قوت باہ کو ایک عجیب فائدہ یہ دوا پہنچاتی ہے اور مقوی معدہ ہے اور کاہلی اور سستی کو دور کرتی ہے اور کئی عوارض کو نافع ہے۔ آپ ضرور اس کو استعمال کر کے مجھ کو اطلاع دیں۔ مجھے تو بہت ہی موافق آگئی ہے۔ ’’فالحمد ﷲ علیٰ ذالک‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۱۲، خط نمبر۹)
۳… ’’ایک مرض مجھے نہایت خوفناک تھی کہ صحبت (جماع) کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوذ (خیزش عضو مخصوصہ) بکلی جاتا رہتا تھا۔ (خیال رہے یہ ایک نبی کا مقدس کلام ہے) شاید قلت حرارت غریزی اس کا موجب تہی وہ عارضہ باالکل جاتا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا حرارت غریزی کو مفید ہے اور منی کو گاڑھا کرتی ہے۔ غرض میں نے تو اس میں آثار نمایاں پائے ہیں۔ واﷲ اعلم اگر دوا موجود ہوتی اور آپ دودھ اور ملائی کے ساتھ کچھ زیادہ قدر شربت کر کے استعمال کریں تو میں خواہش مند ہوں کہ آپ کے بدن میں ان فوائد (خیزش عضو) مخصوصہ کی بشارت سنوں۔ کبھی کبھی دوا کی چھپی چھپی تاثیر بھی ہوتی ہے۔ جو کہ ہفتہ عشرہ کے بعد محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ دوا ختم ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے زیادہ کھالی ہے۔ اس لئے ارادہ ہے