بیماریاں ہیں۔ ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی۔ یعنی مراق اور کثرت بول۔‘‘
(اخبار بدر قادیان ماہ جون ۱۹۰۶ء ص۵)
آپ کے دل میں اس وقت یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس جگہ اس تحریر کو زیر قلم لانے کی کیا وجہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عاجز نے سرورق پر وعدہ کیا ہوا ہے کہ مرزاقادیانی اور امت مرزائیہ سے آنجہانی کی تردید کی گئی ہے۔ لہٰذا وعدہ مذکورہ کا ایفا کرنے کی غرض سے یہ تحریر سپرد قلم کی گئی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ مراقی شخص ملہم یا نبی نہیں ہوسکتا۔
اگر ہم بذات خود یا کسی طب کی معتبر کتاب سے اس کا ثبوت دیتے تو ممکن تھا کہ اس ثبوت کو قبولیت حاصل نہ ہوتی اور قادیانی احباب ہماری محنت کو ٹھکرا دیتے۔ لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ ان کے گھر کی ہی شہادت پیش کی جائے تو بجا ہوگی۔
ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب مرزائی اسسٹنٹ سرجن لکھتے ہیں: ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیتی ہے۔‘‘ (رسالہ ریویو بابت ماہ اگست ۱۹۲۶ء ص۶،۷)
اور اس رسالہ کے پرچہ بابت ماہ نومبر ۱۹۲۹ء کے ص۹ پر تحریر ہے کہ: ’’ہسٹریا کے مریض کو جذبات پر قابو نہیں ہوتا۔‘‘ بلکہ مرزاقادیانی خود لکھتے ہیں: ’’مگر یہ بات تو بالکل جھوٹا منصوبہ اور یا کسی مراقی عورت کا وہم تھا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۲۵۶ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۷۴)
ناظرین کرام! غور کا مقام ہے۔ جب مراقی عورت کی بات قابل اعتبار نہیں ہوسکتی تو مراقی آدمی کی بات کیونکر قابل اعتبار ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب پٹیالوی
جو عرصہ بیس سال تک مرزاقادیانی کے مرید رہے اور بعد میں مرزائیت کو ترک کر دیا۔ ڈاکٹر موصوف نے پیش گوئی کی تھی کہ مرزاقادیانی مورخہ ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جائیں گے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی خود اپنی کتاب (چشمہ معرفت ص۳۲۱، خزائن ج۲۳ ص۳۳۶) پر لکھتے ہیں: ’’ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے۔ جس کا نام عبدالحکیم خان ہے اور وہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی مورخہ ۴؍اگست