۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جاؤں گا۔‘‘
اور (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷) پر لکھتے ہیں۔ ’’اس نے (یعنی ڈاکٹر عبدالحکیم) یہ پیش گوئی کی کہ میں اس کی زندگی میں ہی مورخہ ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک اس کے سامنے ہلاک ہو جاؤں گا۔ مگر خدا نے اس کی پیش گوئی پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اس کو ہلاک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی نظر میں صادق ہے۔ خدا اس کی مدد کرے گا۔‘‘
اس مقابلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی بتائی ہوئی پیش گوئی کی مدت کے اندر ہی اندر مرزاقادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو وفات پاگئے اور ڈاکٹر صاحب آخر ۱۹۱۹ء تک زندہ رہے۔ پس مرزاقادیانی کی یہ پیش گوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی۔
مرزاقادیانی کے آنے کا مقصد
ناظرین مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ وہ تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔ وہ ایسے سچے مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اﷲتعالیٰ نے چاہا ہے اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور دنیا اس کو بھول جائے اور خداتعالیٰ واحد کی عبادت ہو۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۵ئ، ص۵)
مرزاقادیانی کی اصلی تحریر جو ہم نے نقل کی ہے۔ ناظرین کرام! سامنے رکھ کر غور سے مطالعہ کریں۔ آیا مرزاقادیانی اپنے وعدہ کے اندر پورے نکلے۔ افسوس کسر صلیب کی بجائے عیسیٰ پرستی اور صلیب پرستی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ عیسائیوں کی تعداد بہ نسبت سابق ترقی کر رہی ہے جو کہ مردم شماری سے پتہ لگ سکتا ہے۔ مسلمان آج تقویٰ اور طہارت پر قائم ہونے کی بجائے گمراہ ہو رہے ہیں اور اپنے مذہب کو سلام کئے جارہے ہیں۔ مختصر یہ کہ مرزاقادیانی نے جو دعویٰ کیا ہے۔ اس میں ناکامی کے سوائے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ نہ عیسیٰ پرستی کا ستون گرا نہ کسر صلیب ہوئی۔ بلکہ عیسائیوں کی زیادتی تعداد کے متعلق خود مرزاقادیانی کا مرید لکھتا ہے: ’’آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ آج پچاس لاکھ کے قریب ہے۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۲۸ئ)