نہ آئے تو میں جھوٹا ہوں۔ دنیا مجھ سے کیوں دشمنی کرتی ہے۔ وہ میرے انجام کو کیوں نہیں دیکھتی۔ اگر میں نے اسلام کی حمایت میں وہ کام کر دکھایا جو المسیح علیہ السلام یا المہدی نے کرنا تھا تو میں سچا ہوں اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مرگیا تو پھر سب گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں۔‘‘
(اخبار بدر قادیان مورخہ ۱۹؍جولائی ۱۹۰۷ئ)
یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہے کہ مرزاقادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بموقع میلہ بھدر کالی کو لاہور کے مقام پر فوت ہوئے۔ سرسری نظر سے بھی اگر دیکھا جائے کہ کیا مرزاقادیانی اپنی پیش کردہ تحریر کے اندر ثابت قدم نکلے تو صاف جواب نفی میں دینا پڑے گا۔ کیونکہ قرآن مجید تو علانیہ ڈنکے کی چوٹ بیان فرمارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پیشتر تمام اہل کتاب ان پر یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آویں گے۔ مگر افسوس کے ساتھ اس بات کو بیان کرنا پڑتا ہے کہ مرزاقادیانی پر ایک بھی عیسائی جو کہ مرزاقادیانی کا سخت جانی دشمن تھا۔ یعنی (عبداﷲ) مرزاقادیانی کی اشد کوشش کے باوجود بھی مرزاقادیانی پر ایمان نہ لایا۔ جس کی بابت مرزاقادیانی نے یوں پیش گوئی بھی فرمائی تھی۔ جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب کہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب کہ پیش گوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سوجاکھے جائیں گے اور بعد لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۰۹، خزائن ج۶ ص۲۹۱)
اور اسی طرح اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں۔ ’’بلکہ پیش گوئی میں یہ صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الیٰ الحق ثابت نہیں ہوگا۔ تو صرف اس حالت کے میں پیش گوئی کے اندر فوت ہوںگے۔‘‘ (انجام آتھم ص۱۳، خزائن ج۱۱ ص۱۳)