آپ کی طرف سے یہ دعا ہوگی کہ یہ شخص درحقیقت کافر کذاب اور دجال اور مفتری ہے اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو خداتعالیٰ میرے پر لعنت کرے۔
اگر یہ الفاظ میری دعا کے آپ کی نظر میں ناکافی ہوں جو آپ تقویٰ کی راہ سے لکھیں کہ دعا کے وقت یہ کہا جائے۔ وہی لکھ دوںگا۔ مگر اب ہرگز ہرگز تاریخ مباہلہ تبدیل نہیں ہوگی۔ ’’لعنۃ اﷲ علیٰ من تخلف منا وما حضر فی ذالک التاریخ والیوم والوقت والسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ‘‘ خاکسار: غلام احمد از امرتسر(مکتوبات احمدیہ ج۶ حصہ اوّل ص۱۹۱،۱۹۲، مورخہ ۷؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ)
غرض یہ ہے کہ اب میں بری الذمہ ہوگیا ہوں اور مجھ پر کسی قسم کی ملامت نہیں۔ کیونکہ میں نے تاریخ کا بدلنا تو اس سبب سے چاہا تھا کہ اگرچہ میں اور دیگر مسلمان مرزاقادیانی کو کیسا ہی گمراہ سمجھیں۔ مگر جب وہ اسلام کی طرف سے لڑتا ہے تو ہم سب کو بجائے بددعا کے دعا اور مددد دینی چاہئے۔ مگر مرزاقادیانی نے وہ تاریخ ۱۰؍ذیقعدہ نہیں بدلی۔ اب بھی اس وقت معینہ پر کہ ۱۰؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ بوقت ۲بجے دن کے اپنا حاضر ہونا مباہلہ کے واسطے مقام مباہلہ میں فرض سمجھتا ہوں اور وہاں جاکر وعظ یا لیکچر یا اظہار صفائی طرفین سے مطلق نہ ہوگا۔ جیسا کہ اس نے اپنے خط میں وعدہ کر لیا ہے کہ مقام مباہلہ میں کوئی وعظ نہ کروں گا۔ مقام عید گاہ میں مباہلہ اس طریق پر بدیں الفاظ ہوگا۔
’’میں یعنی عبدالحق تین بار بآواز بلند کہوں گا کہ یا اﷲ مرزاقادیانی کو ضال، مضل، ملحد، دجال، کذاب، مفتری، محرف کلام اﷲتعالیٰ واحادیث رسول اﷲﷺ سمجھتا ہوں۔ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں۔ تو مجھ پر وہ لعنت کر۔ جو کسی کافر پر تو نے آج تک نہ کی ہو۔‘‘
مرزا تین بار بآواز بلند کہے۔ یا اﷲ اگر میں ضال ومضل وملحد دجال وکذاب ومفتری ومحرف کتاب اﷲ واحادیث رسول اﷲﷺ ہوں تو مجھ پر وہ لعنت کر۔ جو کسی کافر پر تو نے آج تک نہ کی ہو۔ بعدہ روبقبلہ ہوکر دیر تک ابتہال اور عاجزی کریں گے کہ یا اﷲ جھوٹے کو شرمندہ اور رسوا کر اور سب حاضرین مجلس آمین کہیں گے۔‘‘ المشتہر: عبدالحق غزنوی از امرتسر پنجاب
(مورخہ ۸؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ماہ جون ۱۸۹۱ئ)
اس اشتہار کے مطابق عیدگاہ امرتسر میں دونوں صاحبوں کا مباہلہ ہوا اور دونوں فریق امن وامان سے واپس آگئے۔