ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا فیصلہ ہے بات صاف اور دوٹوک ہے۔ دنیا کا کوئی مسلمان یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا ہے کہ اگر وہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔ رشتہ ناطہ کرے تو ہم اس کی نبوت مان لیں گے۔ کسی انسان کو نبوت کے مقام پر اﷲتعالیٰ کے فائز کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کا اقرار عین اسلام اور اس کا انکار عین کفر ہو۔ جیسا کہ آج تک کوئی نبی نہیں گذرا (خواہ وہ ہارون علیہ السلام ہوں جن کے پاس شریعت نہ تھی) جس نے یہ بات دوٹوک نہ کہی ہو کہ میں انسانوں میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے نبی مامور ہوں۔ اگر میری نبوت کا اقرار کرو گے تو اسلام میں آجاؤ گے اور اگر انکار کرو گے تو کفر میں رہو گے۔ جیسا کہ تمام مسلمانان عالم کایہ متفقہ فیصلہ ہے کہ کسی ایک نبی کا انکار دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ جب کہ ہم حضور نبی اکرمﷺ کی شریعت کے سوا کسی کی شریعت کی کوئی پابند نہیں۔ صرف نبی ماننا شرط ایمان ہے تو پھر صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی حضرات کے ساتھ بھی ہمارا اختلاف صرف اور صرف دعویٰ نبوت اور کچھ بھی نہیں۔ صرف یہ صاف ہونا چاہئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کیا تھے اور قادیانی حضرات ان کو کیا مانتے ہیں اور اس سے کیا نتائج اخذ ہوتے ہیں اور ان نتائج کا اطلاق کیسے ہوتا ہے۔
قصہ اس کتابچے کا جس کا تذکرہ میں نے ابتداء میں کیا تھا
اب میں اس پمفلٹ کا بھی ذکر کروں گا جو کہ مبارک محمود صاحب رام گلی نمبر۳ برانڈرتھ روڈ لاہور کا شائع کردہ ہے۔ اس کا عنوان سرورق پر یوں ہے۔ احمدی مسلمان غیراحمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ اس کے اندر انہوں نے ان فتوؤں کا ذکر کیا ہے جو کہ وقتاً فوقتاً مختلف حضرات نے مختلف مکاتیب فکر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے لئے دئیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق مرزائیت کی صداقت سے بالکل نہیں ہے۔ جیسا کہ میں اوپر واضح کر چکا ہوں کہ اصل اختلاف یہ ہے ہی نہیں اور جوااصل اختلاف ہے۔ اس کو تو خود مبارک محمود صاحب نے اپنے عنوان سرورق پر تحریر عبارت میں واضح کر دیا ہے۔ مگر اپنی اس پرانی تکنیک سے کہ بات ہی گول مول کرو کہ عوام جو ہمارا شکار ہیں۔ کچھ نہ سمجھ پائیں۔ تحریر فرماتے ہیں کہ احمدی مسلمان غیراحمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ غور فرماویں احمدی مسلمان، لیکن غیراحمدی مسلمان ہیں۔ جب کہ احمدی مسلمان ٹھہرے تو غیراحمدی